• news

قصور: مقامی انتظامیہ سب سے بڑے جنسی سکینڈل کو دبانے میں ناکام‘ مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے: لواحقین

لاہور (اشرف جاوید/ نیشن رپورٹ) قصور میں بچوں پر جنسی تشدد کا سکینڈل سامنے آنے پر مزید کئی خاندانوں نے اس حوالے سے شکایات کی ہیں تاہم مقامی انتظامیہ ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتی نظر آئی اور اس بات کی تردید کرتی رہی کہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔ تاہم انہیں اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور ہفتہ کے روز مزید 12 متاثرین نے اس حولے سے شکایات درج کرائی ہیں تاکہ انہیں اس حوالے سے انصاف ملے۔ متاثرین نے پچھلے دس برس کے دوران جوڈیشل اور انتظامی معاملات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بعض تنظیموں اور گروپوں کی طرف سے فوجی عدالت میں ٹرائل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ متاثرین میں ایک 12 سالہ لڑکی کی والدہ نے کہا کہ ہمیں پولیس پر یقین نہیں اور ہم آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ’’دی نیشن‘‘ کے ساتھ گفتگو میں اس خاتون کا کہنا تھا کہ ہفتہ کے روز تمام ٹی وی چینلز پر اس شرمناک سکینڈل کی خبریں چلتی رہیں تاہم اس حوالے سے اعلیٰ حکام کی طرف سے کوئی بڑا ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس حوالے سے نہ کسی عدالت نے سوموٹو لیا اس حوالے سے پنجاب حکومت کی طرف سے نوٹس لیا گیا اور کہا گیا کہ مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ متاثرین کے لواحقین کا اصرار ہے کہ علاقے کے منتخب نمائندے اور پولیس مجرموں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے جبکہ پولیس اور علاقے کے ایم پی اے نے ان الزامات کو یکسر مسترد کر دیا ہے شہر میں مختلف بینرز آویزاں نظر آتے ہیں جس پر وزیراعلیٰ سے انصاف کا مطالبہ کیا گیا ہے ایک متاثرہ بچے کے بھائی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس اس سلسلے میں صرف درخواستیں وصول کر رہی ہے جبکہ ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیا جا رہا واضح رہے کہ پولیس پہلے ہی 7 مقدمات درج کر چکی ہے اور اس کے مطابق اب تک 40 سے 50 افراد سے تفتیش کی گئی ہے۔ایک 50 سالہ شخص نے نیشن کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنما متاثرین پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور علاقے میں احتجاج کو روکنے کیلئے بھاری تعداد میں پولیس کوبھی تعینات کیا گیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پولیس کی طرف سے انہیں دھمکایا بھی جا رہا ہے۔ اس گاؤں کے ایک دوسرے شخص نے بتایا کہ پولیس اس لئے ایسا کر رہی ہے کیونکہ وہ ملزموں کو تحفظ دے رہی ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ بار بار پولیس، سیاستدانوں کے پاس جا رہے ہیں مگر اس کی کوئی مدد نہیں کی جا رہی اور کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور زیادہ تر پولیس افسر معاملہ کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ہمیں انصاف نہیں مل جاتا۔ پولیس کی طرف سے وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی رپورٹ میں بھی اس واقعہ کو نہیں اٹھایا گیا بلکہ اسے پرانا واقعہ قرار دیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ تصادم میں 20 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس میاں آفتاب فرخ نے کہا ہے کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ متاثرین کے الزامات اگر عدالت میں آتے ہیں تو فیصلے کیلئے میڈیکل رپورٹ میں جنسی تشدد کا ثابت ہونا ضروری ہے اور اگر رپورٹ میں ثابت نہیں ہوتا تو ملزموں کو سزا دینا ممکن نہیں ہوگا تاہم بعض وکلا کی رائے ہے کہ اس حوالے سے سامنے آنے والے ویڈیو کلپس شہادت کیلئے کافی ہیں۔ جسٹس فرخ کے مطابق اگر کچھ لوگ اپنے طبی معائنہ کیلئے تیار ہوں تو یہ کیس آگے چل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا جو لوگ ملزموں کو تحفظ دے رہے ہیں ان کیخلاف عدالت سے رجوع کرنا چاہئے۔ پولیس کے افسروں کے مطابق یہ واقعات 2007ء سے 2013ء کے دوران ہوئے۔ انکا کہنا ہے کہ واقعات کافی پرانے ہیں جس کی وجہ سے شواہد کے حصول میں مشکلات ہیں۔ صوبائی وزیر شجاع خانزادہ نے مانا ہے کہ گینگ کے حوالے سے ثبوت ملے ہیں اور مجرموں کو سخت سزا دی جائیگی۔ انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے غفلت کے مرتکب افراد کو سزا ملنی چاہئے۔ایم پی اے ملک احمد سعید نے وقت نیوز کو انٹرویو میں کہا ہے کہ معاملے میں سیاسی مداخلت نہیں، رشوت دینے کا الزام ثابت ہو جائے تو استعفیٰ دینے کیلئے تیار ہوں۔ جہاں ضرورت ہو گی متاثرین کے ساتھ کھڑا ہونگا۔ ملزموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ ملزمان کو سپورٹ کرنے کے معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ جن بچوں سے زیادتی ہوئی ان کو اپنے بچے سمجھتا ہوں۔ ملزمان کا حمایتی نہیں ہوں۔ مجھے کسی نے کیس دبانے کیلئے نہیں کہا۔
قصور، لاہور (نمائندہ نوائے وقت+نیوز ایجنسیاں+نوائے وقت رپورٹ) قصور کے علاقے گنڈا سنگھ کے نواحی گاؤں حسین خاں والا میں بچوں سے جنسی زیادتی کا سکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد پولیس کے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ ملزمان بچوں کی ویڈیوز بناکر فروخت کرتے رہے، پولیس بے خبر رہی۔ ڈی پی او قصور کے مطابق جنسی تشدد سے متعلق 60 سے 70 ویڈیو کلپس موجود ہیں جبکہ 8 افراد کو گرفتار کیا گیا تاہم ویڈیوز میں زیادہ تر افراد شناخت کے قاتل نہیں۔ دوسری طرف آر پی او شیخوپورہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر چیز انتظامیہ پر ڈالنا غلط ہے یہ جھگڑا 19 ایکڑ اراضی سے شروع ہوا تھا، کسی بے گناہ کو گرفتار نہیں کیا جائیگا۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق گروہ کافی عرصہ سے سرگرم تھا۔ دو تین سال قبل اسی گروپ نے لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بھی بنانا شروع کردیں اور لڑکوں کو بلیک میل کر کے نہ صرف انکے ساتھ بار بار زیادتی کی جاتی بلکہ ان سے رقم اور مختلف اشیا بھی ہتھیائی جانے لگیں۔ ویڈیوز دو تین ماہ قبل منظرعام پر آئیں تو میڈیا نے اسے ہائی لائٹ کیا جس پر پولیس حرکت میں آگئی۔ متا ثرین نے پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرہ کیا تو وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے نو ٹس لیتے ہو ئے آئی جی پنجاب کورپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تو آئی جی پنجاب نے فوری گنڈا سنگھ تھانے میں ڈی آئی جی شیخوپورہ رینج شہزاد سلطان کو بھیجا تو ڈی آ ئی جی نے ڈی پی او قصور کی موجودگی میں ایک کمیٹی بنائی جو ایس پی انوسٹی گیشن کی سربراہی میں بنی جس کے بعد متاثرہ افراد کے حوصلے بڑھے اور انہوں تھانے کا رخ کیا۔ اسطرح 35 افراد کیخلاف 7 مقدمات درج کر لئے گئے۔ متاثرین کا خیال ہے کہ پولیس ملی بھگت کرکے ملزمان کو چھوڑ رہی ہے۔ اس سلسلے میں دو روز قبل متاثرین کچھ دنوں بعد دو بارہ پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کیلئے گھروں سے نکلے تو پولیس نے گاؤں کی ناکہ بندی کردی۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی جس پر انکے مابین جھگڑا ہوگیا تو لاٹھیاں اور گولیاں چل گئیں جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی سٹی سرکل حسن فاروق گھمن، صدر سرکل قصور مرزا عارف رشید، ایس ایچ او گنڈا سنگھ والا مہر محمد اکمل، ایس ایچ اور پی ڈویژن ملک کفائت حسین، ایس ایچ او اے ڈویژن ملک طارق محمود، سب انسپکٹر عبدالرحمن، اکبر، اے ایس آئی عمران لقمان، محمد ریاض اور ساجد علی سمیت 15 سے زائد پولیس ملازمین زخمی ہوگئے تھے۔ لاٹھی چارج سے مظاہرین وقاص اور ارشد سمیت چار سے زائد افراد بھی زخمی ہوئے۔ ڈی آئی جی اور ڈی پی او رائے بابر سعید، ڈی سی او عدنان ارشد اولکھ ، پنجاب اسمبلی، حاجی محمد نعیم صفدر انصاری اور مظاہرین کے نمائندوں کے مابین مذاکرات ہوئے جس میں ایس ایچ او گنڈا سنگھ مہر محمد اکمل کو فوری طور پر معطل کرنے اور مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف موثر کارروائی اور میرٹ پر تفتیش کرنے کے معاہدہ پر مظاہرین پر امن منتشر ہوگئے۔ قصور ریسٹ ہا وس میں ڈی سی او قصور کی موجودگی میں ڈی پی او قصور اور ایس پی انویسٹی گیشن اور متا ثرین کو بلوایا اور متاثرین کو تسلی دی کہ آپکے سا تھ زیا دتی نہیں ہوگی۔ اس معاملے میں ڈی پی او قصور رائے بابر سعید سے رابطہ کیا تو ڈی پی او قصور نے بتایا کہ زیادتی کے مقدمات میں ہم نے 8 ملزمان کو پہلے ہی گرفتار کیا ہوا ہے اور دو ضمانت پر ہیں، پولیس عوام کی محافظ ہے، مظاہرین نے پولیس افسروں اورملازمین کو زخمی کرکے زیادتی کی۔آ ج متا ثرین نے میڈیا کو بتایا کی ملزمان اس قدر بااثر ہیں کہ پولیس انکے سامنے بے بس ہے اور مقا می ایم پی اے نے ملزمان سے 50 لا کھ روپے لیکر پولیس کو دیا کیونکہ سیا سی شخصیات انکی پشت پناہی کرتی ہیں۔ متا ثرین کا وزیراعظم میاں نوازشریف، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف سے اپیل ہے کہ پولیس نے جن ملزموں کو چھوڑ دیا ہے انکو فوری گرفتار کرے۔ متاثرین نے دھمکی دی کہ اگر ملزمان کو گرفتار نہ کیا گیا تو ہم پورا خاندان چیف جسٹس آف پاکستان کی عدالت کے باہرخود کو آگ لگا کر خودکشی کر لیگا۔ لواحقین کے مطابق ملزمان اس قدر طاقتور ہے کہ ہمارے گھر آکر مار دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ سکینڈل کے بارے میں ڈی سی او قصور عدنان ارشد اولکھ سے را بطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا معاملہ نہیں، اسکے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا اور ایس پی انویسٹی گیشن سے را بطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم متاثرین کا پورا ساتھ دینگے اور میرٹ پر فیصلہ کریں گے تو اسکے بعد مقا می ایم این اے میاں وسیم اختر شیخ سے را بطہ کیا تو انہوں نے حسین خاں والا میں جنسی سکینڈل کی پرزور مذ مت کی۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین میرے پاس نہیں آئے، اگر آتے تو میں انکی ہر طرح تے مدد کرتا۔ ضلع قصور کے وکلائ، تاجر تنظیموں، سماجی کارکنان نے جنسی سکینڈ ل کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کیخلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے کیونکہ ہمیں یہاں انصاف کی توقع نہیں۔ این این آئی کے مطابق پاکستان میں بچوں سے زیادتی کا یہ سب سے بڑا سکینڈل ہے۔ زیادتی کے شکار والدین سے بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بھی بٹورے گئے۔ ڈی پی او قصورنے اس حوالے سے بتایا ہے کہ پولیس کو بچوں سے زیادتی کے 60 سے 70 ویڈیوکلپ ملے ہیں تاہم قابل شناخت لوگ کم ہیں۔ قصور میں کم عمر بچوں سے زیادتی کا واقعہ منظرعام پر آنے کے بعد 280 بچوں سے زیادتی کی 400 ویڈیوز منظرعام پر آگئی ہیں۔ گینگ میں 25 سے زائد لوگ شامل بتائے گئے ہیں، گھنائونے واقعہ سے اہل علاقہ بے بس نظر آتے ہیں۔ واقعہ تب سامنے آیا جب گذشتہ ہفتے زیادتی کا شکار ایک بچے کے والدین اور اہل علاقہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ہیڈ صبا صادق نے سکینڈل کو بچوں سے زیادتی کا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل قرار دیا ہے اور اسکی انکوائری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ معاملے پر وفاقی سطح پر آواز اٹھائونگی ۔پولیس کے متضاد بیانات کے بعد لواحقین نے تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ گنڈا سنگھ میں زیادتی کا شکار بچے کے لواحقین نے کہا ہے کہ اطہر منان کے ساتھ زیادتی ہوئی، بہت دھمکیاں دی گئیں، ملزم پانچ تولے سونا لوٹ کر لے گئے۔ بچوں کو بے ہوش کرکے اغوا کیا جاتا ہے، زیادتیاں کرنے والے مجرم اسی گاؤں میں رہتے ہیں۔ بچوں کو نشہ آور گولیاں کھلا کر زیادتی کی جاتی تھی۔ ڈی پی او صاحب جھوٹ بول رہے ہیں۔ ڈی پی او سے کہا مجرموں کو گرفتار کرو، مگر نہیں کیا گیا۔ ایم پی اے کے پاس گئے مگر کوئی مدد نہیں کی گئی۔ گاؤں کے چودھری پولیس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ انصاف دینے کی بجائے مارا پیٹا جاتا ہے۔ پولیس بات سننے کی بجائے مارتی اور دھمکیاں دیتی ہے۔ ملزمان خود کہتے ہیں کہ ملک احمد سعید انکی پشت پناہی کررہا ہے۔ آر پی او شیخوپورہ شہزاد سلطان نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پولیس نے 8 مقدمات درج کئے ہیں، ہر چیز انتظامیہ پر ڈالنا غلط ہے۔ جن ملزمان کا اہم رول تھا ان میں سے 6 کو گرفتار کرلیا۔ گرفتار ملزمان سے موبائل فونز برآمد ہوئے ہیں۔ کئی سال سے یہ واقعات چل رہے ہیں لیکن کسی نے رپورٹ نہیں کیا۔ یہ جھگڑا 19 ایکڑ اراضی سے شروع ہوا۔ کسی بے گناہ شخص کو گرفتار نہیں کیا جائیگا۔ ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ مساجد سے اعلانات کرائے گئے مگر کوئی مقدمہ درج کرانے نہیں آیا۔ یکم جولائی سے ایسے واقعات کے مقدمات درج ہونا شروع ہوئے۔ تمام ملزمان پکڑ لئے، ایک ضمانت پر ہے وہ بھی گرفتار ہوگا۔ واقعات سے انکار نہیں کر رہے، 12 سے 13 ویڈیو کلپس موجود ہیں۔ گاؤں حسین والا میں گذشتہ 6 سال سے ایسے واقعات ہوئے۔ چھ سال کے دوران کسی نے ایسے واقعات کیخلاف آواز نہیں اٹھائی۔

ای پیپر-دی نیشن