ہر میچ جیتنے کیلئے نہیں ہوتا!
آج کا دن اِس حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اِس ایک دن میں گزشتہ کا پورا ایک برس سمویا ہوا ہے۔ یہ پورا ایک کلینڈر ہے جو گھوم کر سامنے آگیا ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے عمران خان نے پارلیمنٹ سے منہ موڑ کر سڑکوں پر آنے اور لاہور سے براستہ سڑک اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔گزشتہ ایک سال میں سڑکوں کو کس کس طرح پامال نہ کیا گیا اور عوام کی آزادی کے نام پر اور ملک میں انقلاب اور تبدیلی کے عنوان پر اسلام آباد کے ’’حصارِ احمر‘‘ میں دیے گئے دھرنوں میں آسمان نے کیا کیا مناظر نہ دیکھے تھے!پارلیمنٹ پر قبضے، سرکاری عمارتوں پر دھاوے ،پی ٹی وی میں توڑ پھوڑ، وفاق کی علامت دیگر قومی عمارتوں کی جانب جتھوں کی صورت میں پیش قدمی اور پھر ہر شام ڈھلتے ہی ڈی جے بٹ کی موسیقی کے آہنگ میں ’’اوئے اوئے کی سیاست‘‘ ، ڈھول دھمکے میں تبدیلی کی ’’دعائیں اور مخالفین کے ’’دریا برد‘‘ ہوجانے کی بد دعائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دل میں وزیراعظم بننے کی مچلتی خواہش پوری ہونے کی تمنا میں اسلام آباد میں چند لاشیں گرنے کی آرزو! لیکن اِن چند لاشوں کی تمنا میں اُن درجنوں لاشوں کو بھلادیا گیا جو اِس تبدیلی کی خواہش میں پی ٹی آئی کی قیادت کی اپنی خام پالیسیوں کی وجہ سے گریں! ایک سال گزرنے کے بعد بھلا تحریک انصاف کے کتنے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ دھرنے میں شرکت کیلئے پندرہ اگست کو اسلام آباد پہنچنے والے پی ٹی آئی کے جوانوں کی ایک گاڑی اُلٹ گئی تھی اور اس حادثے میں دو جوان جاں بحق اور دو عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے تھے۔پھر اگلے ماہ ہی دھرنوں سے مایوس ہوکر جب پی ٹی آئی کی ٹیم نے شہر شہر جلسوں کا پروگرام بنایا تو پہلے مرحلے میںملتان پہنچنے پر جو تحریک انصاف کو درجن بھر لاشیں اٹھانا پڑیں تھیں تو کیا وہ خون محض ایک وزارت عظمیٰ کے حصول کیلئے نہ گرا تھا؟
پاکستان تحریک انصاف کے بقول معاملہ محض چار حلقوں کا تھا! اگر واقعی معاملہ چار حلقوں کا تھا کہ تو کیا چار حلقوں کے معاملے پر درجنوں نوجوانوں کاخون بہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟قرائن پہلے ہی بتارہے تھے کہ معاملہ چار حلقوں کا نہیں بلکہ ایک گہری سازش تھی جس کے تانے بانے باہر بیٹھے لوگوں نے بنے اور اندر بیٹھے لوگ بلا سوچے سمجھے صرف ایک وزارت عظمیٰ کیلئے اس سازش کا حصہ بننے پر تیار ہوگئے۔ اگر معاملہ واقعی چار حلقوں کا تھا کہ تو اُس پر تو حکومت آج سے ٹھیک ایک سال پہلے آج ہی کے دن اُس وقت تیار ہوچکی تھی، جب وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ سے کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی۔وزیراعظم نواز شریف کی پیشکش دراصل پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی سیاسی بصیرت کا امتحان تھی لیکن افسوسناک طور پر پی ٹی آئی کے ’’سفید کنپٹیوں‘‘ والے تمام ’’نوجوان‘‘ رہنما اس امتحان میں ناکام رہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے وزیراعظم کی اِس تقریر کا استہزا اُڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہماری منزل سامنے اور بالکل قریب ہے، ہم نواز شریف کی طرح گوجرانوالہ سے واپس نہیں لوٹ سکتے‘‘۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران گوجرانوالہ سے واپس لوٹ کر مسلم لیگ ن کی قیادت نے جس سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا تھا اور ملک کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنی ’’منزل‘‘ حاصل کرلی، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے اُس سیاسی تدبر کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیا اور اس کے بعد کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں کے ساتھ وہی ہوا جو میر کے ساتھ ہوا تھا!
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
تحریک انصاف کی قیادت کو غالباً اب بھی ادراک نہیں ہو پایاکہ ایک سال میں بہت کچھ بدل چکا ہے، پی ٹی آئی کے کاندھوں پر بیٹ رکھ کر ایک گیند سے ساری وکٹیں اڑانے والے ’’بہی خواہ‘‘ ایک ایک کرکے رخصت ہوچکے ہیں، اب تحریک انصاف کو جو کچھ کرنا ہے اپنے بل بوتے پر کرنا ہے، تحریک انصاف کی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ امپائر کی انگلی کی مدد حاصل ہونے کے باوجود احتجاج کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں کرپائے تو اِس مدد کے بغیر بھلا کیا تیر مارسکیں گے! حد تو یہ ہے کہ جس عدالتی تحقیقات کی پیشکش حکومت کی جانب سے ایک سال پہلے ہوئی تھی، اُسے اپریل میں منظور کرنے کے باوجود انکوائری کمیشن سے بھی پی ٹی آئی کو اپنے مطلوبہ’’اہداف‘‘ حاصل نہیں ہوسکے۔ انِ حالات میں کیا یہ ضروری نہیں ہوجاتا کہ تحریک انصاف کی قیادت ایک لمحہ کو رک کر گزشتہ ایک سال کی اپنی ’’کارکردگی‘‘ کا جائزہ لے اور اپنی ناکامی پر مخالفین کو کوسنے کی بجائے اپنی غلط پالیسیوں سے رجوع کرے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو آج کے دن سوچنا چاہیے کہ اِس ایک سال میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی ہی نہیں بہہ چکا بلکہ دہشت گردی کے پلوں کے نیچے سے بہت سے خون بھی بہہ چکا ہے۔ بلاشبہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردی کا ایک دور ختم ہونے کو ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ردعمل کے طور پر دہشت گردی کے چیلنجز سامنے آنے کا بھی خدشہ ہے۔ اُدھر پاک چین اقتصادی راہداری زون صرف پاکستان کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ اس خطے اور اس خطے کی بڑی عسکری و اقتصادی طاقتوں کی ہم سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اور سب سے بھی بڑھ کر یہ کہ امریکہ کو افغانستان سے واپسی کیلئے محفوظ راستہ درکار ہے۔ یہ تمام وہ عوامل ہیں جو ملک میں کسی اکھاڑ پچھاڑ کے حق میں نہیں جاتے، ایسے میں اب بھی کسی ’’تبدیلی‘‘ کی امید رکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے! حقیقی تبدیلی تو یہی ہوگی کہ آج پورے ایک سال بعد جب عمران خان اپنی ٹیم کو لے کر دوبارہ پارلیمنٹ کا حصہ بننے جارہے ہیں تو ایک لمحہ رُک کروہ کرکٹ کے بنیادی اصولوں کو دوبارہ یاد کرلیں کہ کرکٹ میں مسلسل محنت اور صبر کے ساتھ ہی اپنی منزل حاصل کی جاسکتی ہے!
قارئین کرام!! آج ٹھیک ایک سال بعد پی ٹی آئی کی ٹیم اپنے کپتان کی قیادت میں دوبارہ پارلیمنٹ میں اتر رہی ہے، اس موقع پر مسلم لیگ ن کے ارکان کو صبر اور برداشت اور خندہ پیشانی کے ساتھ اپوزیشن ارکان کو پارلیمنٹ میں واپس آنے دینا چاہیے اور کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہونی چاہیے! ایک دوسرے کو ’’شرم حیا‘‘ یاد دلانے کی بجائے یہ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے۔اگر عمران خان جیسے اپنے زمانے کے بہترین باؤلر کو یاد نہیں بھی رہتا تو اسمبلی میں موجود وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو کم از کم لازمی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر گیند وکٹ اڑانے، کیچ لینے، اسٹمپ کرنے یا رن آؤٹ کیلئے نہیں ہوتی!اگر بالفرض اسی کی دہائی کا بہترین آل راؤنڈر بھول بھی گیا ہے تو خواجہ سعد رفیق کو یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہر بال پر چوکا یا چھکا نہیں لگایا جاتا اور اگر 1992ء کے عالمی کرکٹ کپ کا فاتح بھول بھی گیا ہے تو عالمی معیار کی گیندیں، بلے ، وکٹیں اور سپورٹس کا سامان تیار کرنے والے شہر سیالکوٹ کے باسی خواجہ آصف کو کم از کم لازمی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر میچ جیتنے کیلئے نہیں ہوتا!