آبی وسائل پنجاب اور کالا باغ ڈیم
ربّ کعبہ نے مسلمانان برصغیر کو جو قیادت عطا فرمائی وہ دوسری قوموں کی قیادت کے مقابلے میں بصیرت و بصارت میں یکتا اور منفرد تھی۔ حضرت علامہ اقبال نے 1930ء میں مسلمانان برصغیر کے لئے علیحدہ ریاست کا تصور ہی نہیں دیا بلکہ خطہ زمین کی نشاندہی کے ساتھ ایک ایسی قیادت کا انتخاب بھی کیا جو کروڑوں مسلمانوں کا نجات دہندہ ثابت ہوا۔ اسی طرح حضرت قائداعظم محمد علی جناح جب آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں مجوزہ جغرافیے کے ہر پہلو سے اہمیت و فضیلت عیاں ہوتی جا رہی تھی جس کے باعث یہ ایک عظیم اسلامی سلطنت کا روپ دھار سکتا تھا۔ حضرت قائداعظم کو حاصل کردہ مملکت کے محل و قوع کی قدر و قیمت کا ادراک تھا جس کی سرحدیں ایک جانب ایران سے ہوتی ہوئی افغانستان اور چین سے جا ملتی ہیں تو دوسری جانب طویل بارڈر ہندوستان سے ہوتا ہوا روس تک رسائی دیتا ہے۔ ایک طرف گرم سمندر کا وسیع ساحل دوسری طرف گلیشیئر کا خزانہ، کشمیر سے بہتے دریا اور بل کھاتی گھاٹیاں خوشحالی اور تاباں مستقبل کی نوید دے رہی تھیں۔ حضرت قائداعظم نے حصول وطن کے بعد ہر شعبہ زندگی میں بنیادی امور کی تشکیل کے عمل کو بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا لہٰذا قومی معیشت کے فروغ کے لئے سمت کا تعین کیا۔ صنعتی ترقی کے اہداف تشکیل دیے گئے۔ ملک میں انڈسٹری کے قیام اور دوام ،خام مال کو تکنیکی مہارت سے اعلیٰ اشیاء تیار کرنے کے منصوبے تیار کئے۔ ان حالات میں ملکی توانائی نہ ہونے کے برابر تھی صرف ساٹھ میگاواٹ بجلی بنائی جا سکتی تھی۔ چنانچہ حضرت قائداعظم نے پہلے ہی سال 1948ء میں پانچ سو میگاواٹ بجلی بنانے کیلئے میانوالی ہائیڈرل پراجیکٹ کا نہ صرف سنگ بنیاد رکھا بلکہ اس کی تعمیر کے لئے بجٹ میں رقم مختص کرتے ہوئے جلد تکمیل کا حکم دیا تاکہ بجلی کے ساتھ ساتھ زراعت کے لئے پانی ذخیرہ کیا جا سکے۔ حضرت قائد کی نظر دور اندیش نے پراجیکٹ کے ساتھ ہی صوبہ سندھ کی بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے نارا کینال کی تعمیر کے کام کا بھی آغاز کر دیا تاکہ اس نہر کے ذریعے تھرپارکر کے خشک اور ریگستانی علاقے کو پانی کی نعمت دے کر لوگوں کی بھوک پیاس کا علاج کیا جا سکے تاہم یکم اپریل کو اچانک سفاک اور متعصب بھارتی قیادت نے پاکستان کی جانب بہنے والی نہروں کا پانی بغیر کسی اطلاع کے بند کر دیا جس سے ہمارے زرعی شعبہ میں مشکلات بڑھنے لگیں۔ ان حالات و کیفیات سے عہدہ برآں ہونے کے لئے مزید منصوبہ جات جنگی بنیادوں کے تحت شروع کئے گئے جس میں ہیڈ مرالہ سے راوی، مرالہ سے بلوکی اور بلوکی سے ہیڈ سلیمانکی تک لنک نہروں کی تعمیر کا کام شروع کرا دیا گیا۔ لہٰذا دستیاب تمام وسائل اور افرادی قوت کو میانوالی ہائیڈرل پراجیکٹ سے نکال کر نہروں کی تعمیر میں جھونک دیا گیا۔ ان عظیم قومی منصوبوں پر شب و روز کام جاری تھا کہ حضرت قائداعظم اس جہان فانی سے عالم بقا کی طرف سفر کر گئے، کچھ ہی عرصہ بعد شہید ملت لیاقت علی خان کو افسر شاہی نے سنگ راہ سمجھ کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ پھر ایک طرف بھارتی آبی جارحیت روز کا معمول ہو گئی جب چاہے پانی بند کر دے جب چاہے زیادہ چھوڑ دے۔ دوسری جانب پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر غیر جمہوری، غیر نظریاتی طبقے کا قبضہ زور پکڑتا گیا ایسی صورت میں ورلڈ بینک کے ذریعے بھارت نے پاکستانی دریائوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ 1960ء میں انڈس واٹر ٹریٹی کے نام سے ایک عجیب و غریب آبی معاہدہ طے پایا جس کی رو سے پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج پوری طرح بھارت کے سپرد کر دیے گئے اور تینوں مغربی دریائوں پر کشمیر یوٹیلٹی کے علاوہ پاکستان کے حق میں تسلیم کیا گیا۔ ورلڈ بینک نے طے شدہ منصوبہ کالا باغ ڈیم کی جگہ تربیلا ڈیم تعمیر کیا جس کی رقم کو انڈس واٹر ٹریٹی کے ساتھ منسلک کر کے ہماری مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا۔ بس وہ دن اور آج بھی یہ سلسلہ آکاس بیل کی مانند پھیلتا چلا گیا۔ مشرقی دریائوں کی بھارت سپردگی سے منسلک رقبے کی زرخیزی اور شادابی سے کون کمبخت واقف نہیں۔ کیسی ہی خشک سالی ہو یہ خطہ کمال فصلیں مہیا ہوتی تھیں جو اب ممکن نہیں۔ راوی اور ستلج دریائوں کے پاکستانی رقبے میں تقریباً چار سو میل طویل علاقہ تیرہ لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ رقبے کی زراعت ختم ہو چکی ہے۔ متبادل بننے والی نہریں ان علاقوں کو سیراب کرنے سے قطعا قاصر ہیں جس کے نتیجے میں زراعت کے علاوہ اس طویل علاقے سے آبی حیات کا مکمل خاتمہ ہو چکا۔ بیشمار مچھلیوں کی اقسام نابود، جڑی بوٹیاں، پھل سبزیاں اور اناج سے محروم علاوہ ازیں پچیس لاکھ ایکڑ رقبہ نہر کی ٹیل پر ہونے کی وجہ سے پانی کے لئے ترس رہا ہے۔ راوی سے منسلک گوگیرہ اور ساہیوال اناج اور مال مویشیوں سے مالا مال آج سندھ طاس معاہدے پر نوحہ کناں ہے۔ اسی طرح ستلج کے بیچنے پر قصور، کنگن پور سے لیکر پاکپتن، قبولہ، لڈن چشتیاں سے بہاولپور اور احمد پور شرقیہ سمیت تمام علاقے اناج کی منڈیاں ہیں جو اب بھارتی آبی جارحیت کے سبب اپنا مقام قائم نہیں رکھ سکیں۔
1989ء میں پی پی پی کی حکومت میں کالا باغ ڈیم کا منصوبہ پیش کیا گیا جس پر صوبہ سندھ کو اعتراض ہوا کہ تعمیر سے قبل پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل کر لیا جائے۔ 1991ء میں مسلم لیگ کی حکومت میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت حاصل شدہ پانی سے سندھ اور پنجا ب کو 37 فیصد، صوبہ سرحد کو 14 فیصد اور بلوچستان کو 12 فیصد کا حصے دار قرار دیا۔ ڈیم کی جھیل کا حجم 6.1MAF ہے اور حاصل شدہ پانی کا تخمینہ 11.62 ایم اے ایف بتایا گیا۔ پنجاب نے اس عظیم منصوبے کی کامیابی کے لئے دوسرے صوبوں کے تمام مطالبات تسلیم کرکے تاریخی کردار ادا کیا جس کے مطابق سندھ 5.72 سرحد 2.89 بلوچستان 1.78 اور سب سے بڑے آبادی اور زراعت والے صوبہ پنجاب کا حصہ سب سے کم 1.45MAF قبول کیا۔ کسی کا حصہ کم ہو یا زیادہ پانی کا ہر قطرہ پاکستان کی سرزمین کو کشور حسین میں تبدیل کرے گا۔ اس ڈیم سے ایک جانب تھرپارکر کے عظیم پاکستانیوں کی ہر سال بھوک و پیاس سے ہزاروں ہلاکتیں روکنے کے ساتھ یہاں خوشحالی اور فراخی رزق کا اہتمام ہوگا تو ملک کے بڑے علاقے میں سیلا ب سے ہزاروں بستیاں تباہ ، مال مویشی غرق ، انسانی جانوں کے ضیاع کا سدباب ہونے کے ساتھ یہ خطہ دوسرے سرسبز شاداب حصوں کے برابر آ سکے گا۔ قوم میں احساس محرومی اور نااتفاقی کاخاتمہ ہو گا جب کالا باغ ڈیم کے ثمرات حاصل ہونگے تو ہر صوبہ پکارے گا کہ یہ ڈیم میرا ہے۔ انشاء اللہ یہ ڈیم ملکی سلامتی یکجہتی کی علامت کے طور پر پہچانا جائے گا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی غذائی ضروریات اور توانائی سستی اور وافر فراہم کرنے کی کنجی ثابت ہوگا۔