• news
  • image

تینوں لے کے جانا اے میانوالی

سیلاب بھی آیا تو نواز شریف میرے ضلع میانوالی گئے۔ اب تو وہاں عمران خان بھی نہیں جاتا۔ وہ وہاں سے اب رکن اسمبلی بھی نہیں ہے۔ جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پرہار گئی تھی۔ عائلہ ملک بھی یہاں نہ آئی۔ اسے تو یہ صدمہ کھا گیا ہے کہ عمران نے ریحام خان سے شادی رچا لی۔ اب وہ ریحام خان کے مقابلے میں الیکشن لڑے گی۔ اسے زبردستی کھڑا کرائے گی اور پھر الیکشن لڑے گی۔ وہ واقعی ریحام خان سے لڑے گی وہ تیار رہے۔ اس کشتی کے ریفری عامر محمود ہوں گے؟ اسے امید ہے کہ وہ جیت جائے گی کہ ریحام کے پاس تحریک انصاف کا ٹکٹ ہو گا۔ شرط یہ ہے کہ اس کے لئے ریحام میانوالی سے الیکشن لڑے۔ وہ کہیں سے نہیں لڑے گی اور عائلہ ملک کو مسلم لیگ ن یعنی نواز شریف ٹکٹ دے دے گا تو عبیداللہ خان شادی خیل کیا کرے گا۔ اس کا انتظام نواز شریف کر لیں گے۔ اسے سنیٹر بنوا کے وزیر شذیر بنانے کا وعدہ کر لیا جائے گا۔ ریحام خان کے روابط عام لوگوں کے ساتھ مشکل سے ہونگے۔

بہرحال نواز شریف کا شکریہ کہ وہ میرے میانوالی گئے ہیں۔ وہاں 55 ہزار لوگ بے گھر اور بے درودیوار ہو گئے۔ بے گھری تو میانوالی میں سیلاب کے بغیر بھی ہے۔ غریب لوگ عذاب میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کم و بیش 100 دیہات ڈوب گئے۔ نواز شریف نے 30 کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس پیسے کا کیا بنے گا؟ کس کو ملیں گے؟ ایک ایم این اے کچھ سال پہلے مایوس اور افسردہ ہو گیا تھا۔ پوچھا گیا کہ کیا ہوا تو اس نے کہا اس سال سیلاب کم آیا ہے۔ ہمیں فنڈز ہی نہیں ملیں گے تو ہم کیا کریں گے؟ سیلاب آئے اور تکڑا سیلاب آئے تو فنڈز بھی بہت ملتے ہیں۔ تو ہمارا بھی کچھ بن جاتا ہے؟ اس سال بڑا مندا ہے؟ اب تو وہ خوش ہیں کہ بہت تباہی ہوئی ہے۔
30 کروڑ نواز شریف نے دیے ہیں تو اس کی نگرانی بھی کریں۔ پہلے ڈپٹی کمشنر سیاستدانوں اور اراکین اسمبلی سے مل جاتے تھے۔ چور تو چوروں سے ملیں گے۔ کئی ڈی سی گئے۔ ہم ان کا نام بھی نہیں جانتے۔ اب جو ڈی سی او میانوالی ہیں میں نے اس کی بہت تعریف سنی ہے۔ میں انہیں نہیں ملا ہوں۔ جو لوگ انہیں ملے ہیں اور جو نہیں ملے وہ سب ان کی تعریف کرتے ہیں۔ میانوالی کے کئی دوستوں نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ بہت اچھے اور قابل اور دردمند افسر ہیں۔ وہ اس شہر کو بنانا چاہتے ہیں۔ میرے ایک ذہین دوست بلال اور سماجی کارکن وارث نیازی نے مجھے بتایا کہ ان کی وجہ سے ضلع میں امن آیا ہے۔ بلال سے میری گذارش ہے کہ وہ دعا کریں وہ ضلع میں خوشحالی بھی لائیں۔ ترقیاتی منصوبوں پر کام کریں۔ آج کل سیلاب زدگان کے لئے مدد کریں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں ڈی سی او کی تعریف کی۔ ان کا نام غالباً سرفراز ورک ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ زیادہ مدت تک میانوالی میں رہیں اور کچھ ایسا کام کر جائیں کہ لوگ انہیں دیر تک یاد رکھیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک ضلع کا ڈی سی یا ڈی سی او چاہے تو ضلعے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
ورنہ میانوالی وہی ہے جو میں نے 30 برس پہلے دیکھا تھا۔ کوئی نئی بلڈنگ نئی سڑک نئی پارک یہاں نہیں بنی۔ ایک ہی راستہ ہے۔ جو میانوالی شہر میں جاتا ہے۔ نہ کام کی لائبریری ہے، نہ کوئی ہال نہ جلسہ گاہ ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک بڑی نہر میانوالی کے سینے پر مونگ دلتی ہوئی گزرتی ہے۔ لوگ صرف بہتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس پر کوئی کام کا پل بھی نہیں ہے۔ سرفراز ورک سے گذارش ہے کہ وہ اس ضلعے کو ایک ماڈل ضلع بنا دیں۔ یہاں اب سرگودھا یونیورسٹی کی شاخ بنی ہے۔ یہ ایک بہترین تحقیقی تعلیمی ماحول کی جگہ ہے جہاں لڑکے لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد الیاس طارق بہت اعلٰی انسان اور استاد ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری ایک بہت بڑے علمی تحقیقی معرکے کے آدمی ہیں۔ انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی میں حیرت انگیز ترقیاتی کام اپنے علم اور تحقیق کی روشنی میں کئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ان سے یہاں زیادہ خدمت لی جائے۔ یہاں اچھے سکول ہوں، کئی جدید ہسپتال بنائے جائیں، سڑکیں ٹھیک ہوں۔ لوگ اپنی حاملہ عورتوں کو آج بھی کھوتیوں پر لاد کر ہسپتال لاتے ہیں اور وہ راستے میں مر جاتی ہیں۔ ان کے پیٹ میں بچہ بھی مر جاتا ہے۔ وہ کسی طور پر ہسپتال پہنچ بھی جائیں تو بھی بچ نہیں پاتیں کہ ہسپتالوں میں کوئی سہولیات اور ادویات نہیں ہیں۔ کام کے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ بہرحال سرفراز ورک سے امید ہے کہ وہ کچھ کر دکھائیں گے۔ غنڈہ عناصر کا قلع قمع کریں اور اچھے لوگوں کو موقع دیں۔
تحریک انصاف کی عائلہ ملک کے مقابلے میں جیتنے والے ن لیگ کے عبیداللہ خان شادی خیل بڑے بڑے ارادے رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی فون پر بات ہوئی ہے۔ وہ کچھ کریں گے تو اگلی بار لوگوں میں سرخرو ہوں گے۔ حمزہ شہباز بھی انتخابی مہم میں میانوالی آئے تھے۔ وہ یہاں آیا کریں تاکہ اہلیت اور خدمت میں بھی انتخاب ہو۔ وہ جوان ہیں، جوان ارادوں والے ہیں۔ ان سے ملاقات رہتی ہے۔ وہ برادرم شاہد رشید سے پوچھتے ہیں کہ محمد اجمل نیازی کی اصل عمر کا پتہ چلے تو مجھے بھی بتائیں؟
کبھی سیلاب گزر جانے کے بعد بھی نواز شریف آئیں۔ شہباز شریف بھی آئیں ورنہ حمزہ شہباز شریف تو ضرور آئیں۔ بلکہ آیا کریں۔ عمران خان کا جہاز موسم کی خرابی کا شکار ہو گیا۔ وہ نواز شریف سے پہلے آنا چاہتے تھے۔ اس میں کوئی سیاسی بات ہو گی مگر اب وہ آئیں گے تو کیا کریں گے۔ نواز شریف پہل کر گئے ہیں اور کروڑوں روپے اور ”اربوں کے وعدے“ کر کے گئے ہیں۔ عمران نے نمل یونیورسٹی بنائی ہے۔ وہ میرے شہرموسیٰ خیل کے نمل ڈیم کے ساتھ ہے۔ اس کو عمران خان ”نیا ڈیم“ بنا دیتے تاکہ میانوالی کے لوگوں کو پتہ چلتا کہ نیا پاکستان کا نعرہ ٹھیک ہے۔ نمل یونیورسٹی کی اہمیت سے میں واقف ہوں۔ اور اسے قابل تعریف سمجھتا ہوں۔ مگر اس کے فوائد کچھ برسوں کے بعد ظاہر ہوں گے۔ فوری طور پر لوگوں کو ابھی کچھ اور چیزیں چاہئیں۔ وہ کون دے گا۔ عبیداللہ خان شادی خیل، شہباز شریف سے لے کے میانوالی کے لوگوں کو دے دیں۔
میں شہباز شریف کے پہلے کسی دور حکومت میں انہیں ملا تھا۔ انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری جاوید محمود کو بلا کے کہا تھا کہ لوگ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ مگر میں خود محمد اجمل نیازی سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان سے میانوالی کے لئے بات کی اور وہاں ترقیاتی کاموں کے لئے کہا تو انہوں نے مجھے کہا کہ میانوالی کے اراکین اسمبلی میرے پاس آتے ہیں اور میانوالی کے لئے کوئی بات نہیں کرتے۔ آپ ایک شاعر ادیب اور کالم نگار ہو۔ آپ اپنے ضلعے کے مسائل اور معاملات پر بات کر رہے ہو۔ میں نے انہیں کہا کہ میں نے اپنے لوگوں سے ووٹ نہیں لیا۔ ان کے نام پر نوٹ تو بالکل نہیں لینا ہیں۔ میانوالی میرے عزیزوں رشتہ داروں اور دوستوں کی بستی ہے۔ وہاں میرے باپ دادا کی قبریں ہیں۔ وہاں بہت غریب بے بس اور پس ماندہ خواتین و حضرات رہتے ہیں۔ بڑے مشکل زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ کئی سہولتوں کے لئے ترس گئے ہیں بلکہ اپنی بنیادی ضرورتوں کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ انہوں نے مولانا عبدالستار خان نیازی سے محبت کی ان کے لئے قربانیاں دیں مگر وہ آخری عمر میں وزیر شذیر بن کے بھی کچھ نہ کر سکے۔ نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان یعنی وزیراعظم کے برابر منصب پر فائز رہ کر بھی کچھ نہ کر سکے۔ وہ کالا باغ ڈیم بنوا جاتے تو تاریخ انہیں یاد رکھتی۔ میانوالی کے لوگوں نے روکھڑیوں کو ”بادشاہ“ بنایا مگر محرومی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ ڈاکٹر شیر افگن ان کی کلاس کا آدمی تھا مگر خود امیر کبیر وزیر شذیر بن گیا۔ لوگوں نے عمران خان کو میانوالی کا بیٹا سمجھا۔ اپنا ہیرو بنایا مگر وہ قومی لیڈر بن کر اپنی بستی کو بھول گیا۔ انہوں نے اسے ممبر بنایا جب تحریک انصاف کا ایک ہی رکن اسمبلی عمران خان تھا۔ یہ اس کی محبوبیت کی سیاسی ابتدا تھی مگر انتہا بھی اس کے اپنے گرد گھومتی رہی۔ پھر اسے نواز شریف کا مدمقابل میانوالی نے بنایا مگر اس نے اپنی چار سیٹوں میں سے سب سے پہلے میانوالی کی سیٹ چھوڑ دی اور پھر یہ سیٹ بھی ہار گیا۔ یہ میانوالی کا پہلا ردعمل اس کے خلاف تھا۔
میانوالی کے لوگ کہاں جائیں۔ کس کے پیچھے لگ جائیں۔ ہر شخص ٹرک کی بتی کے پیچھے آگے ہی آگے بھاگ رہا ہے اور لوگ اپنی مٹی سے لپٹ لپٹ کر تڑپتے رہتے ہیں۔
نواز شریف میانوالی آئے ہیں تو لوگ خوش ہوئے ہیں مگر یہ کب واقعی خوش ہوں گے؟ کوئی ان کی خوشی کا نگہبان نہیں ہے۔ میری تو گذارش ہے کہ جینوئن سیاستدان اور سچے وزیر داخلہ چودھری نثار بھی میانوالی آئیں۔ اور سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف بھی آئیں۔ میانوالی کے بہت لوگ پاک فوج میں ہیں۔ جنرل ثنااللہ شہید ہو گئے تھے۔ ان کے جنازے میں جنرل کیانی نہ آئے تھے۔ تب جنرل راحیل شریف آرمی چیف ہوتے تو وہ ضرور آتے۔
آخر میں یہ عرض کروں کہ نواز شریف عیسیٰ خیل کے سیلاب زدہ علاقوں میں گئے۔ کاش عطااللہ عیسیٰ خیلوی سے ان کی ملاقات ہوتی۔ لالہ ایک عالمی سطح کا گلوکار ہے۔ آدمی بھی بہت اچھا ہے۔ ان کا یہ گانا نواز شریف نے سنا ہو گا۔
بھانویں وسیں تُو ولایت
اساں کرنی نہیں رعایت
تینوں لے کے جانا اے میانوالی
ولایت سے مراد محل ہے اسلام آباد جو سعودی عرب کے سرور محل اور لندن کے رہائشی پلازوں سے کم خوبصورت نہیں ہے۔ میانوالی کے چشمہ بیراج کے متاثرین آج بھی میرے پاس آتے ہیں۔ انہوں نے قربانی دی تو میانوالی کالا باغ ڈیم کے لئے قربانی کیوں نہیں دی جاتی۔ خود غرضی اور وطن دشمنی کی یہ کہانی اب ہر کسی کو پتہ ہے۔ نواز شریف اور عمران خان کو بھی پتہ ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن