سانحہ قصور
احسان شوکت
قصور کے نواحی گاﺅں علاقہ حسین خان والا میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ویڈیو سکینڈل کے ہوشربا انکشافات سے ہر ذی شعور شہری دکھ، کرب اور غم و غصے کے علاوہ ایک انجان وسوسے میں مبتلا ہے۔ قوم کے مستقبل کے نونہالوں کو ہمارے معاشرے میں جن مصائب و مسائل کا سامنا ہے خواہ وہ کسی بھی صورت میں درپیش ہوں۔ یہ صورتحال ہمارے معاشرے منہ پر ایک طمانچہ ہے جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ جبکہ روح زخموں سے چور ہے۔ اس کربناک واقعہ میں ایک یا دو نہیں بلکہ تین سو کے قریب بچوں، بچیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر وحشیانہ کھیل رچایا گیا ہے۔ اگر ہم حقائق کو مدنظر رکھیں اور کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنے معاشرے میں درندگی کے ایسے واقعات کا جائزہ لیں تو افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ایسے شرمناک واقعات ہمارے معاشرے میں نئے نہیں۔ آئے روز ہمارے ملک کے تمام حصوں میں رونما ہوتے رہتے ہیں جہاں درندہ صفت انسان نما بھیڑیوں کی جانب سے معصوم بچوں کو ورغلا، ڈرا دھمکا، پھنسا اور زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے انسانیت سوز واقعات میں سے متعدد واقعات منظر پر بھی آتے ہیں جن کے مقدمات درج ہونے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹ بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ بچوں کے ساتھ درندگی کے بیشتر واقعات میںلوگ معاشرے میں اپنی عزت آبرو کے نام پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ،حالانکہ اسے جہالت کہاجائے تو غلط نہ ہو گا۔ لوگ بدنامی، خوف و ڈر، مجبوری، پولیس کے رویوں، کمزور عدالتی نظام اور انصاف نہ ملنے کے خدشات کے پیش نظر ایسے واقعات میں نہ صرف انصاف کے حصول سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں بلکہ ایسے واقعات جو کہ معاشرے کا بہت بڑا ناسور ہے اسے چھپاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسے جرائم میں ملوث درندے ناصرف بچ نکلتے ہےں بلکہ درندگی کے ان واقعات میں بتدریج خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ محب وطن سنجیدہ حلقے اس صورتحال سے پہلے ہی کرب و دکھ میں مبتلا ہیں مگر اب قصور میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو جنسی زیادتی، بدفعلی، تشدد کا نشانہ بنانے اور پھر ان کی ویڈیو بنانے کے واقعہ نے تو ہمارے معاشرے پر انسانی و اخلاقی اقدار اور مشرقی روایات کی پامالی کے حوالے سے کئی سوال اٹھائے ہیں ۔ واقعات کے حوالے سے اخبارات اور میڈیا میں جو بہت سی تفصیلات سامنے آئی ہیں ، اس سے والدین ایک ناانجان خوف و وسوسے کا شکار ہوئے ہیں۔ آئے روز بچوں سے زیادتی کے واقعات میں جس طرح تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اس کے اسباب کا احاطہ کرنا ضروری ہے ۔ ایسے واقعات کے سامنے آنے پر حکومت ، تمام سیاسی جماعتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بالعموم سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے اور اس کا سدباب کرنے کی بجائے بیان بازی، بلند بانگ دعوے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ شروع کر دیتے ہیں۔ قصور کا واقعہ کوئی آج تو رونما نہیں ہوا۔ ان درندگی کے واقعات کا آغاز 2007ءسے ہوا اور یہ واقعات آج تک تسلسل سے جاری تھے۔ مگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایجنسیوں، حکمران سیاستدانوں اور دیگر اداروں کی آنکھیں بند تھیں۔ اداروں کی اس مجرمانہ غفلت، نااہلی اور ناقص کارکردگی کا جواب تو حکمران و پولیس حکام اور ان اداروں کے حکام ہی دے سکتے ہیں مگر سچ بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ذمہ دار اداروں کے خلاف کارروائی تو دور کی بات ان کو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں۔ سیاسی وابستگی پر تقرریاں حاصل کرنے اور حکمرانوں کے تلوے چاٹنے والے پولیس حکام تو حکمرانوں کی آشیرباد کے لئے ان کی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ ان کی کسی معاملہ میں بازپرس کیسے ہو سکتی ہے؟ قصور کے واقعہ پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی پوائنٹ سکورنگ کے لئے دھڑا دھڑ متاثرہ علاقے کے چکر لگا رہے ہیں اور میڈیا پر خوب ”چھائے“ ہوئے ہیں۔ پولیس حکام واقعہ کو اراضی، عناد اور مخالفت کا رنگ دے کر معاملہ گول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے انصاف فراہم کرنے کے بیان تو اتر کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں مگر کیا یہ دعوے، نوٹس اور جوڈیشل انکوائری اور دیگر اقدامات کیا پہلی دفعہ کئے گئے ہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ تقریباً دو سال قبل لاہور میں مغلپورہ بچی ”س“ کے اغوا اور زیادتی کے واقعہ پر بھی یہی صورتحال دہرائی گئی تھی۔ حکمرانوں اور چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس لینے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیسٹ کیس قرار دینے کے باوجود آج تک اس واقعہ میں ملوث ملزم گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد بھی بچوں سے زیادتی کے انتہائی دلخراش واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔ آئے روز صوبائی دارالحکومت لاہور میں بچوں کو درندگی کے بعد قتل کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں گرین ٹاﺅن میں رنگ ساز یاسین کے بچے 7سالہ معین کو ایک درندے نے مسجد میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنا کر گلے میں رسی کا پھندہ دے کر اس کی لاش سیڑھیوں کے جنگلے سے لٹکا دی۔ پولیس نے ملزم کو پکڑنے کا دعویٰ کرکے اسے فوری مقابلے میں ”پار“ کر دیا اور اصل حقائق دب کر رہ گئے۔ اگر ہمارا عدالتی نظام اتنا اور موثر اور مضبوط ہوتا اور اگر واقعی پولیس نے اصل ملزم کو پکڑ لیا تھا تو اسے ماورائے عدالت قتل کرنے کی بجائے عدلیہ کے ذریعے قرار واقعی سزا ملتی تو نہ صرف ملزم کیفر کردار تک پہنچتا بلکہ ہمارا عدالتی نظام بھی سرخرو ہوتا۔ بلکہ معاشرے میں موجود ایسے درندوں کو سبق ملتا اور ان کے دل میں سزا کا خوف و ڈر پیدا ہوتا مگر ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کو ختم کرنے اور ان کا سدباب کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہاہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے سراج الحق اس واقعہ کی بہت مذمت کر رہے ہیں اور اسے ہمارے معاشرے کیلئے بڑی بدنامی و ذلت گردان رہے ہیں مگر جناب عمران خان صاحب کیا آپ کی جماعت کے زیر انتظام صوبہ خیبر پی کے میں ایسے ذلت آمیز واقعات رونما نہیں ہوتے۔ آپ نے ایسے واقعات کے سدباب کے لئے خیبر پی کے میں کون سی قانون سازی کی ہے۔ صرف دعوے اور نعرے اور سیاسی مخالفت پر بیان بازی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کیا سراج الحق صاحب جس صوبے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے وہاں ان مسائل کے حل کے لئے کیا آواز اٹھائی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بطور اپنی جماعت کے قائد کے اور آپ ایسے درندگی کے واقعات کو روکنے کے لئے عملاً کردار ادا کریں۔ آپ لوگوں کو اللہ رب العزت نے بہت عزت، مرتبہ اور مقام دیا ہے لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔ مانتے ہیں تو خدارا آپ لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا کریں۔ خصوصاً والدین، اساتذہ کو ہدایت کریں کہ وہ اس مسئلہ جو کہ یقیناً ہمارا معاشرتی ناسور بن چکا ہے۔ اس سے نپٹنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ والدین اور اساتذہ بچوںکو اس حوالے سے سمجھائیں کہ خدانخوانستہ انہیں کسی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو وہ فوری انہیں آگاہ کریں خدارا والدین بدنامی کے خوف سے ایسے مسئلہ کو چھپائیں نہیں بلکہ درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اگر سب نے اپنی اپنی جگہ اپنا کردار ادا کیا ہوتا تو مان لیں قصور جیسا سنگین واقعہ ہرگز رونما نہ ہوتا۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ 8 سال تک درندگی کا کھیل جاری رہا اور کسی کو پتا تک نہ چلا ہو۔ والدین اس سنگین واقعہ سے آگاہ ہی نہ ہوئے ہوں۔ اب ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کی جانب آئیں تو وہ کردار بھی انتہائی مجرمانہ ہے۔ کیسی تعجب انگیز بات ہے کہ 8 سال ایسے واقعات رونما ہوتے رہے اور پولیس بالکل لاعلم اور بے خبر رہی تین سو کے قریب بچوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیا گیا مگر پولیس کو کانوں کان خبر نہ ہوئی وہ جگہ جہاں بچوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا وہ بھارتی بارڈر گنڈا سنگھ والا سے قریب اور دہشت گردی کے موجودہ حالات میں انتہائی اہمیت کی حامل جگہ ہے۔ پولیس آئے روز چیکنگ اور سرچ آپریشن کے نام پر عام شہریوں کے گھر دھاوا بول دیتی ہے تو وہاں چیکنگ کیوں نہ کی گئی۔ ایک مقامی ایم پی اے کی پشت پناہی کی وجہ سے ملزمان کو درندگی کا کھیل کھیلنے کی چھٹی دے دی گئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہم سانحات کے منتظر ہوتے ہیں اور کسی بڑے سانحے کو روکنے کے لئے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا ہے۔ لاہور میں ایک سو سے زائد بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے بعد انہیں تیزاب میں ڈالنے کا جاوید اقبال کا سانحہ سامنے آیا تو تب بھی حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے ہی انصاف فراہم کرنے اور آئندہ سے ایسے واقعات کو روکنے کے دعوے سامنے آئے تھے۔ ایک تشویشناک بات یہ ہے کہ پولیس نے کسی ایسے بڑے سانحے کے ملزمان کو خود گرفتار کرنے میں آج تک کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔ سو سے زائد بچوں کے قاتل جاوید اقبال نے خود اخبارات کو اپنے کالے کرتوتوں سے آگاہ کیا اور اخبارات میں ملکی تاریخ میں بچوں سے ظلم و ستم کا واقعہ سامنے آیا تو پولیس حرکت میں آئی۔ اب گزشتہ 8 سالوں سے قصور میں درندگی کا کھیل کھیلا جا رہا تھا مگر پولیس بے خبر رہی۔ والدین کے پولیس سے رجوع کرنے پر بھی پولیس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اہل علاقہ کے مظاہروں، احتجاج اور اخبارات کو میڈیا میں واقعہ سامنے آنے پر مجبوراً اپنی خفگی مٹانے کے لئے، حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے میدان عمل میں آئے ہیں۔ اور پولیس حکام کی سنجیدگی اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بددلی کا یہ عالم ہے کہ اس واقعہ کو بھی اراضی کے جھگڑے کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم منافقت سے کام لینا چھوڑیں اور ہمارے معاشرے پر بدنامی کا یہ جو داغ لگا ہے۔ اسے چھپانے کی بجائے اسے دھونے کے لئے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ایسا معاملہ میں حکومت معاشرے اور تمام اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ حکومت اس سلسلہ میں موثر قانون سازی کرے ، پولیس قوانین پر بلاامتیاز عملدرآمد کرے، عدالتیں ملزمان کو قرار واقعی سزا دیں جبکہ سب سے زیادہ اہم کردار والدین ، اساتذہ، میڈیا اور عوام ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے اور ان کے سدباب کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ شہریوں میں اس حوالے سے شعور پیدا ہو اور ہم اسے معاشرتی ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔