سینٹ: سیکٹر آئی الیون میں کچی آبادی گرانے کیخلاف قرارداد منظور
اسلام آ باد( وقائع نگار + نیوز ایجنسیاں) ایوان بالا نے اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے سیکٹر آئی الیون میں کچی آبادی کو گرانے کے خلاف قرارداد منظور کر لی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے قرارداد پیش کی کہ ایوان کی رائے میں اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے سیکٹر آئی الیون اسلام آباد میں کچی آبادی کو گرانے اور خالی کرانے کی حکمت عملی غیر موزوں ہے، یہ ایوان اسلام آباد میں کچی آبادیوں کو ہٹانے کے لئے سی ڈی اے اور آئی سی ٹی کی انتظامیہ کی ظالمانہ کارروائی کی مذمت کرتا ہے۔ حکومت کچی آبادیوں کے مکینوں سے گھر خالی کرانے کیلئے موزوں حکمت عملی اختیار کرے اور ان کی بحالی کے لئے انہیں معاونت فراہم کرے۔ علاوہ ازیں ایوان بالا نے سینٹ کے ارکان کے انتخابات کا طریقہ کار، وحدانی قابل منتقل ووٹنگ نظام کے ہر پہلو، متبادل، پول اصلاحات کو زیر بحث لانے کے لئے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک کی منظوری دیدی۔ اجلاس کے دوران قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے تحریک پیش کی کہ قواعد، ضابطہ کار و انصرام کارروائی سینٹ 2012ء کے قاعدہ 172 الف کے تحت سینٹ کے ارکان کے انتخابات کا طریقہ کار، وحدانی قابل منتقل ووٹنگ نظام کے ہر پہلو، متبادل، پول اصلاحات وغیرہ کو زیر بحث لانے کے لئے ایوان پورے ایوان پر مشمتل کمیٹی تشکیل دے۔ سینٹ نے قواعد، ضابطہ کار و انصرام کارروائی سینٹ 2012ء میں بعض ترامیم اور نئے قاعدوں کی شمولیت کی منظوری دیدی۔ اجلاس کے دوران راجہ محمد ظفر الحق نے اپنی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر سعید غنی کی طرف سے تحریک پیش کی کہ قواعد، ضابطہ کار و انصرام کارروائی 2012ء کے قاعدہ 277 کے ذیلی قاعدہ 4 کے تحت ترامیم پیش کرنے کی اجازت دی جائے جس کی ایوان نے منظوری دیدی جبکہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ صوبوں کو داخلی خطرات ہوں یا بیرونی وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔ اس ملک میں جمہوری عمل بہتری کی طرف جا رہا ہے، سابق وزیراعظم کے دور میں صوبے میں اے این پی کی حکومت تھی وہاں سوات اور مالاکنڈ میں جو صورتحال بنی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وفاقی حکومت نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا اور طاقت کے ذریعے وہاں کی اس صورتحال کو ختم کیا اور سوات کو پر امن علاقہ بناکر صوبائی حکومت کے حوالے کیا۔ کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں ہے، سندھ اور بلوچستان میں بھی ہماری حکومت نہیں لیکن جمہوریت کا سفر کامیابی سے رواں دواں ہے۔ قبل ازیں سینیٹر نثار محمد خان نے اپنی 6 جولائی 2015ء کو پیش کردہ تحریک ’’یہ ایوان آئین کے آرٹیکل 148 کی پیروی میں وفاق کی ذمہ داری کو زیر بحث لائے‘‘ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں وفاق کی ذمہ داری کیا ہے اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے، بیرونی جارحیت کی تشریح ہونی چاہیے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صوبوں اور وفاق کے مابین ذمہ داریوں کے حوالے سے مسئلہ سامنے آتا رہتا ہے، پاکستان تیزی سے کنفیڈریشن کی طرف جا رہا ہے، وفاق اور صوبوں کے مابین اختیارات کا توازن قائم کرنے کیلئے آئین میں 8 دفعات ہیں ان میں وفاق کی ذمہ داریاں واضح ہیں، مرکز اور صوبے ایک دوسرے کو اختیارات منتقل کر سکتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال نے کہا کہ پاکستان میں پیداواری لاگت اب بھی کئی ملکوں سے کم ہے، ٹیکسٹائل مصنوعات کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بہتر مارکیٹیں تلاش کرنا ہوں گی اور وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا ہو گا۔ پاکستان میں پیداواری اب بھی بہت کم ہے، ملک کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، خام مال کا معیار بھی ایک مسئلہ ہے، ہم اس طرف نہیں گئے، ہم کاٹن میں ویلیو ایڈیشن نہیں کر سکے اور ٹیکنالوجی نہیں لا سکے۔ ہمیں بہتر مارکیٹیں تلاش کرنا ہوں گی، اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسٹائل سے متعلقہ معاملات پر کمیٹی میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔ قبل ازیں تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ملک میں بجلی کی قیمتیں کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہیں، گیس کی قیمتیں بھی خطے میں سب سے زیادہ ہیں، اس سے ٹیکسٹائل کی صنعت پر اثر پڑ رہا ہے اور برآمدات بھی متاثر ہو رہی ہیں، اگر یہ شعبہ بیٹھ گیا تو بہت نقصان ہوگا۔ سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ختم ہونے سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوں گے۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ کچھ چیزوں میں قومی اتفاق رائے ہونی چاہیے اور ان پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، کوالٹی کنٹرول کا ادارہ بننا چاہیے۔ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت بیمار ہو گئی تو روزگار کے مواقع بھی نہیں رہیں گے۔ بعدازاں اجلاس (آج) منگل کی سہ پہر ساڑھے تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔