قیامت کی نشانیاں
نوائے وقت گروپ کے اداروں نوائے وقت، دی نیشن اور وقت ٹی وی نے قصور کے نواحی دیہات میں معصوم بچوں، بچیوں کے ساتھ گزشتہ چار پانچ سال سے جاری جنسی زیادتی کے گھنائونے کاروبار سے پردہ اٹھایا اور اس سفاکانہ جرم کی جزئیات تک کی خبر لی تو میڈیا کی فعالیت کے حوالے سے بالخصوص حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ بحث شروع کرا دی گئی ہے کہ معاشرے میں سرزد ہونے والے اخلاق باختگی کے ایسے جرائم کو ہائی لائٹ کرکے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے گزشتہ دو روز سے براہ راست ٹیلی فونک اور بذریعہ مراسلت بھی تنقید کا سامنا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی بعض حلقے اسی ذہنیت کے تحت لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں مگر کیا میڈیا کا یہ مثبت کردار نظر اندار کیا جا سکتا ہے کہ قصور زیادتی کیس کے ہائی لائٹ ہونے سے ہی جہاں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور دوسری حکومتی شخصیات کو اس گھنائونے کاروبار کا نوٹس لینے اور اس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمشن تشکیل دینے کی ضرورت محسوس ہوئی وہیں والدین کے ذہنوں میں بھی یہ بات اجاگر ہوئی ہے کہ وہ سکولوں میں اور کاروبار پر جانے والے اپنے بچوں بچیوں کے روزمرہ کے معاملات زندگی پر کڑی نظر رکھیں۔ چنانچہ اس واقعہ کے ہائی لائٹ ہونے سے تو بگاڑ کی طرف دوڑے چلے جاتے ہمارے معاشرے کی اصلاح اور سفاک مجرموں کی فوری گرفت کے لئے قانون کو موثر طور پر حرکت میں لانے کا راستہ کھلا ہے۔ یہ عجیب طرز عمل ہے کہ کسی گھنائونے جرم کی نشاندہی پر اس کی سرکوبی کے فوری اقدامات اٹھانے کے بجائے میڈیا کو رگیدنا شروع کر دیا جائے کہ وہ جرائم کو ہائی لائٹ کرکے معاشرے کا چال چلن خراب کر رہا ہے۔
ہاں اخلاق باختگی کی بنیادوں پر تیار ہونے والی اس گھنائونے جرم کی کہانی کی پرتیں کھلنے سے بہترین گورننس کے داعی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی گورننس پر ضرور حرف آیا ہے تو کیا یہی بہترین حکمت عملی ہے کہ گورننس پر آئے اس حرف کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے کے لئے سرے سے ایسے گھنائونے جرم کے سرزد ہونے سے ہی انکار کر دیا جائے؟ جب ڈی پی او قصور خود اعتراف کر رہے ہیں کہ معصوم بچوں، بچیوں کے ساتھ اخلاق باختگی پر مبنی ویڈیو فلموں کے کچھ کلپس انہوں نے بطور ثبوت حاصل کر لئے ہیں اور جب اس قبیح فعل میں استعمال کئے جانے والے بچے، بچیاں اور ان کے والدین خود اس امر کی نشاندہی کر رہے ہوں کہ فلاں فلاں مکروہ آدمی نے ان کے ساتھ یہ فعل کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ اس فعل کے لئے اکسایاہے تو پھر پہلے سے ہی اپنے معاملات پر متنازعہ بنے ہوئے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کو ’’طیور‘‘ کی زبانی یہ اڑتی سی خبرکیسے مل گئی کہ ایسی قبیح حرکت والا کوئی واقعہ سرے سے رونما ہی نہیں ہوا۔ کیا خواجہ آصف صاحب اس معاملہ میں بھی لب کشائی کرکے اپنے ان الفاظ کو دہرانا پسند کریں گے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔‘‘ ارے غضب خدا کا، گزشتہ چار پانچ سال سے یہ گھنائونا کاروبار جاری ہے مگر اس کے نوائے وقت گروپ کے ذریعے میڈیا پر ہائی لائٹ ہونے تک کسی حکومتی انتظامی مشینری کو ایسے سفاک مجرموں کی گرفت کا خیال تک نہ آیا جبکہ دیہات کے کلچر میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ گائوں کی کسی عمارت میں ایسا ننگِ انسانیت کھیل جاری ہو اور سالہا سال تک اہل علاقہ کو اس کی خبر تک نہ ہوئی ہو۔ دیہات میں تو کسی چڑیا کے پر مارنے کی خبر بھی پلک جھپکنے میں ہر گھر تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر تصور کیجئے کہ قصور کے متعلقہ موضع میں والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ ایسے قبیح فعل کی خبر ہوئی ہو گی تو کیا وہ یہ سب کچھ خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے رہے ہوں گے یا انہوں نے اپنے بڑے بزرگوں کے ساتھ اس قبیح فعل کا تذکرہ کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا ہو گا۔ اس طرح علاقے کے بزرگوں، پنچوں کے ذریعے اس گھنائونے کاروبار کی خبر علاقے کے منتخب نمائندوں اور پولیس تھانوں تک بھی شروع دن سے ہی پہنچ گئی ہو گی۔ پھر کیا انہوں نے دانستاً اپنی آنکھیں بند کئے رکھیں یا مصلحتاً اس نوعیت کے سرزد ہونے والے جرائم کو دبائے رکھنے کی کوشش کی جس کے لئے متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کو روائتی پولیس کلچر کے ذریعے خوفزدہ کرکے اپنا منہ بند رکھنے پر مجبور کیا گیا ہو گا مگر کیا ایسے ہتھکنڈوں سے جرائم کی پردہ پوشی ممکن ہے اور جرم کے سرے سے سرزد نہ ہونے کے جھوٹ کو یقین بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے؟ نہیں صاحب، نہیں ؎
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
آپ اس قبیح جرم کی اب پردہ پوشی نہ کریں۔ اس کے سرزد ہونے سے انکار نہ کریں کہ اس کے ثبوت تو ویڈیو کیسٹوں کی لوٹ سیل کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچائے جا چکے ہیں اور پھر اس سفاکی کی بھینٹ چڑھنے والے معصوم بچوں بچیوں کے سوالیہ چہرے اور ان کی بے رونق آنکھیں بھی اس گھنائونے جرم کا ثبوت بن چکی ہیں۔ آپ ہیر پھیر کرکے ایسی قبیح حرکات کے پس منظر میں جائیداد اور اراضی کا کوئی تنازعہ لے آئیں مگر سرزد ہوا یہ قبیح فعل تو اپنی جگہ موجود ہے جس کی بنیاد پر اس جرم میں ملوث ننگِ انسانیت ملزمان گردن زدنی کے لائق ہیں۔ آپ گورننس خراب ہونے کے خدشہ کے تحت ان کے جرائم کو چھپائیں گے یا وقوعہ کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ ان کے سرپرستوں میں ہی شمار ہوں گے۔اس لئے اس گھنائونے جرم کی حقیقت کا اعتراف کیجئے اور ٹھوس بنیادوں پر تحقیقات کراکے تمام مجرموں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے لئے عبرتناک سزائوں والا قانون و انصاف کا عمل فی الفور شروع کرا دیجئے تاکہ کم از کم آئندہ کے لئے ایسے قبیح جرائم کا راستہ روکا اور معصوم بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکے۔ ہمارے روائتی پولیس کلچر میں تو ہرگز ایسی توقع نہیں کہ وہ ایسے جرائم کی سرکوبی میں معاون بنے گا کیونکہ یہ کلچر بے وسیلہ، بے در،بے زر عام آدمی کا نہیں بلکہ دھن دولت والوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سیاسی اثر و رسوخ والوں کا ہی مددگار و معاون ہوتا ہے جس کے تحت مظلوموں کو مجرم بنانا اور جرائم میں لتھڑے گھنائونے، متعفن چہروں پر عطر گلاب چھڑکنا روزمرہ کا معمول ہے۔ قصور جنسی سکینڈل میں بھی پولیس کلچر کے ایسے ہی کرشمے دکھائے جا رہے ہیں اور اس کلچر کی سب سے بڑی گھنائونی واردات یہ ہے کہ طاقت و اختیار والے حلقوں اور انصاف کے ایوانوں میں بھی اس پولیس کلچر کی بولی گئی زبان کو ہی سچ تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ ارے خدا کے قہر سے ڈرو، اور اپنی گرفت خود ہی کر لو، اپنی اصلاح کا خود ہی بیڑہ اٹھا لو، اپنے اعمال خودہی درست کر لو، اپنے معاملات کی خود ہی خبر لے لو ورنہ قدرت کی گرفت عذابِ الیم والی ہے۔ ذرا سوچ لیجئے حضور والا۔ ہم قدرت کی اس گرفت کا خود ہی تو اہتمام نہیں کر رہے اور یہی تو قیامت کی نشانیاں ہیں۔