سندھ اسمبلی میں متحدہ کا شدید ہنگامہ‘ ہاتھا پائی اور بلوچستان اسمبلی میں بھی الطاف حسین کیخلاف قرارداد ---- متحدہ رابطہ کمیٹی اپنے قائد کے دفاع کے بجائے اپنی سیاست بچانے کی کوشش کرے
سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایم کیو ایم متحدہ کے ارکان نے گزشتہ روز زبردست احتجاج اور ہنگامہ کیا اور نعرے بازی کی جسکے باعث سپیکر سندھ اسمبلی کو پہلے دس منٹ کیلئے اجلاس ملتوی کرنا پڑا اور پھر انہوں نے اجلاس کی کارروائی اگلے روز تک ملتوی کر دی۔ ایم کیو ایم نے پہلے اپنے کارکن محمدہاشم کے قتل پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا جبکہ دوسری مرتبہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کیخلاف قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر ہنگامہ کیا گیا۔ اس دوران صورتحال انتہائی کشیدہ ہو گئی اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے ارکان وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو بچانے کیلئے انکے اردگرد جمع ہو گئے اور ایم کیو ایم کے ارکان کو آگے بڑھنے سے روکا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے رکن ڈاکٹر ستار راجپر نے ایم کیو ایم کے رکن ڈاکٹر ظفرخان کمالی کو دھکا دیکر پیچھے ہٹایا تو دونوں جماعتوں کے ارکان کے مابین دھکم پیل شروع ہو گئی اور کافی دیر تک ایوان میں ہنگامہ اور شورشرابا جاری رہا۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے ایوان میں ’’گو زرداری گو‘‘ اور ’’گو عمران گو‘‘ کے نعرے بھی لگائے جبکہ ایم کیو ایم کے ایک رکن راشد خلجی نے بددعا دی کہ جو لوگ ہمارے کارکنوں کو قتل کررہے ہیں‘ خدا انہیں نیست و نابود کرے۔
ایم کیو ایم متحدہ کو اپنے قائد الطاف حسین کے جارحانہ رویہ اور فوجی قیادتوں‘ ملکی آئینی اداروں اور بانیان پاکستان کیخلاف انکی دشنام طرازی اور دشمن ملک بھارت کو مدد کیلئے پکارنے پر مشکلات کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان ایک جانب اپنے قائد کے موقف کے دفاع پر مجبور نظر آتے ہیں تو دوسری طرف انہیں ملکی اور قومی مفادات کے منافی اپنے قائد کی تقریر پر ملک بھر سے قومی سیاسی قیادتوں‘ مختلف حلقوں اور منتخب ایوانوں کی جانب سے بھی سخت ردعمل کا سامنا ہے۔ الطاف حسین کی شرانگیز تقریر پر دو روز قبل سندھ اسمبلی میں حکمران پیپلزپارٹی کی پیش کردہ قرارداد منظور کی گئی جس میں الطاف حسین کو ملک واپس لا کر قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی نے بھی صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگتی کی پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے جس میں الطاف حسین کی فوج مخالف تقاریر کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ الطاف حسین کو کراچی لا کر قرار واقعی سزا دی جائے کیونکہ وہ ملکی سالمیت اور قومی اداروں کیخلاف نفرت انگیز تقاریر کرکے ملک توڑنے کی سازش کررہے ہیں۔ الطاف حسین کی تقاریر کیخلاف ملک بھر سے آنیوالے سخت ردعمل کے پیش نظر متحدہ رابطہ کمیٹی کے ارکان کو اپنے قائد کے ساتھ جذباتی وابستگی سے باہر نکل کر ٹھنڈے دل کے ساتھ اپنی پارٹی کی سیاست اور اسکے مستقبل کو بچانے کا سوچنا چاہیے جس کیلئے دردمند سیاسی حلقوں کی جانب سے انہیں مشورہ بھی دیا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت تبدیل کرلیں اور اپنی پارٹی کیلئے روزانہ کوئی نئی مصیبت کھڑی کرنیوالے الطاف حسین کو انکے حال پر چھوڑ دیں جو خود ہی اپنے آپ کو اندھے کنویں کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان بھی اپنے قائد الطاف حسین ہی کی ڈگر پر پارٹی کو چلانے کی کوشش کرینگے تو یقیناً ملک میں قومی سلامتی کے منافی سیاست کی گنجائش ہے نہ اسکی اجازت دی جا سکتی ہے۔ بے شک متحدہ کا کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں مؤثر حلقہ انتخاب موجود ہے اس لئے اس پارٹی کو کسی انتقامی سیاسی کارروائی کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ الطاف حسین نے ملک کی سلامتی اور اسکے ضامن قومی ادارے کو نقصان پہنچانے والی جس سیاست کا دامن تھاما ہوا ہے اسکے پیش نظر متحدہ میں موجود محب وطن ارکان اور اسکے ووٹروں کو بھی مایوسی ہوگی اور وہ اس پارٹی سے فاصلہ پیدا کرنے پر مجبور ہو جائینگے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے بھی گزشتہ روز اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ سارا مسئلہ الطاف حسین کی تقاریر کا ہے جبکہ حکومت‘ فوج اور پارلیمنٹ متحدہ کے ہرگز خلاف نہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز نائن زیرو کیوں گئی‘ ایوان کہے تو وہ اس سے آگاہ کردینگے کیونکہ نائن زیرو سے جو کچھ ملا ہے‘ وہ بھی قوم کے سامنے آنا چاہیے۔ اس صورتحال میں تو متحدہ رابطہ کمیٹی کو خود ہی سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے کیونکہ اسکی جانب سے الطاف حسین کے موقف کی ہی تائید کی جاتی رہے گی جبکہ ایم کیو ایم کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کیلئے قانون کا شکنجہ مزید سخت ہوگا اور انکے ملک دشمنی پر مبنی جرائم کی ساری تفصیلات شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ قوم کے سامنے آنا شروع ہونگی تو پھر متحدہ کی سیاست کو مزید خسارے کا سامنا کرنا پڑیگا۔ متحدہ کی سالہا سال کی حکومتی حلیف پیپلزپارٹی بھی الطاف حسین کی سیاست پر سخت تحفظات کا اظہار کر رہی ہے اور دیگر سیاسی حلقوں کے علاوہ عسکری قیادتوں کی جانب سے بھی الطاف کی سیاست کو منافرت پھیلانے والی اور ملکی سلامتی کے تقاضوں کے منافی سیاست سے تعبیر کیا جا رہا ہے تو متحدہ کیلئے یہ وقت اپنے قائد کی اس سیاست کا دفاع کرنے کا نہیں بلکہ خود کو اس سیاست سے الگ رکھنے کا ہے‘ بصورت دیگر ملک دشمن سرگرمیوں کا لیبل اکیلے الطاف حسین پر نہیں‘ پوری ایم کیو ایم پر لگ سکتا ہے جس پر آئین کی عملداری ہو گی تو نوبت سپریم کورٹ میں ریفرنس لائے جانے تک بھی آسکتی ہے۔
متحدہ کے ارکان اس حقیقت سے تو انکار نہیں کر سکتے کہ گزشتہ تقریباً 15 سال تک متحدہ کسی نہ کسی طرح وفاق اور سندھ کے اقتدار میں شامل رہی ہے اور اس عرصے کے دوران ہی عروس البلاد کراچی ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری‘ لینڈ گریبنگ اور دوسرے سنگین جرائم کی آماجگاہ بنا رہا ہے اس لئے کراچی میں امن و امان کی اس خرابی سے متحدہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی جبکہ کراچی میں بدامنی کا تسلسل قومی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر دو سال قبل وفاقی حکومت نے کراچی میں رینجرز اور پولیس کے ذریعے ٹارگٹڈ اپریشن کا آغاز کیا جس کیلئے وزیراعظم نوازشریف نے کراچی میں آل پارٹی کانفرنس طلب کرکے تمام سٹیک ہولڈرز سے رضامندی حاصل کی تھی۔ اس وقت الطاف حسین تو بالاصرار براہ راست فوجی اپریشن کا تقاضا کررہے تھے جبکہ اب انہیں رینجرز کا ٹارگٹڈ اپریشن بھی ناگوار گزر رہا ہے۔ انہیں تو اصولی طور پر کراچی میں امن کی بحالی کی خاطر اس اپریشن کا ساتھ دینا چاہیے تھا جبکہ یہ اپریشن متحدہ کیخلاف نہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کیخلاف ہے جن کی بلاامتیاز گرفت ہو رہی ہے۔ اگر ان بدقماش عناصر نے کسی سیاسی پارٹی کے جھنڈے کے نیچے پناہ لے رکھی ہے تو تمام متعلقہ جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پارٹی صفوں میں سے ایسے گندے عناصر کو نکال دیں تاہم اگر متحدہ یا کوئی دوسری جماعت جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کارروائی کو اپنے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی سے تعبیر کرتے ہوئے اس پر احتجاج کا راستہ اختیار کریگی جیسا کہ اس وقت متحدہ کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو اس پر متعلقہ جماعت کی اپنی سیاست پر سوالیہ نشانات لگیں گے۔ اسی حوالے سے جب رینجرز اپریشن کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے عسکری قیادتوں کیخلاف بیانات دیئے تو انہیں بھی کم و بیش تمام سیاسی قیادتوں اور محب وطن حلقوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انہوں نے ملک سے باہر جا کر خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی تاہم متحدہ کے قائد الطاف حسین تسلسل کے ساتھ ملکی سلامتی کے منافی سیاست جاری رکھے ہوئے ہیں جس پر قومی اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کا پیمانۂ صبر بھی لبریز ہو سکتا ہے۔ اگر متحدہ کی رابطہ کمیٹی سمجھتی ہے کہ اسے سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انکے کارکنوں کو ناجائز طور پر حراست میں لیا جارہا ہے تو اسکے پاس دادرسی کیلئے منتخب ایوانوں کے علاوہ انصاف کی عدالتوں کے فورم بھی موجود ہیں۔ اگر اپریشن کے دوران متحدہ کے کسی رکن کیخلاف ناجائز کارروائی ہوئی ہو گی تو عدالتی فورم پر اسکی دادرسی ہو جائیگی اس لئے متحدہ رابطہ کمیٹی کو اپنے قائد کی غلط سوچ کے دفاع کی پالیسی سے باہر نکل کر اپنی پارٹی کی سیاسی بقاء کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور اشتعال انگیز شور شرابے کی سیاست سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر آئین و قانون کی عملداری ہو گی تو متحدہ کے ارکان کو اپنا دفاع کرنا بھی مشکل ہو جائیگا کیونکہ قومی سلامتی پر تو کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔