• news

قصور سکینڈل‘ ویڈیو ز مصدقہ ہیں تو پولیس مقدمات درج کرنے سے گریزاں کیوں ہے : ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی+ اپنے نامہ نگار سے) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس منظور احمد ملک نے قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کیس کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بابا بلھے شاہ کی نگری جو دنیا بھر میں پیار اور امن کا پیغام دیتی ہے وہاں پر بچوں کے ساتھ ایسا گھناﺅنا جرم سرزد ہونا بہت المناک واقعہ ہے جس سے والدین کا بچوں کو سکول نہ بھیجنا اور خوف میں رہنا ایک فطری عمل ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے قصور واقعہ پر فوجی عدالت اور دہشت گردی عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے لئے دائر درخواستوںکی سماعت کی۔ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا، ہوم سیکرٹری اعظم سلمان خان، جے آئی ٹی کے چیئرمین ابوبکرخدا بخش اور دیگر متعلقہ حکام پیش ہوئے۔ فاضل عدالت نے آئی جی پنجاب سے استفسارکیاکہ اس کیس کے کیا حقائق ہیں جس پر آئی جی نے بتایاکہ میں موقع پر خود گیا ہوں 30 سے 40 لوگ میرے پاس آئے کچھ لوگوں نے درخواستیں بھی دیں جس پر سات مقدمات درج کرلئے گئے اور دیگر افراد سے بھی کہاکہ وہ مقدمات کے لئے درخواست دے سکتے ہیں لیکن کسی بےگناہ کو نامزدنہ کیا جائے۔ اب تک 12 افراد افراد کو گرفتارکرلیا گیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے عدالت کو بتایاکہ اب تک 30 ویڈیو کلپس ملے ہیں جن کی روشنی میں کارروائی جاری ہے۔ آئی جی نے بتایا کہ ابھی بچوں کے میڈیکل ہونا باقی ہیں جس پر عدالت نے قرار دیا کہ میڈیکل تو بعد کا مسئلہ ہے پہلے ان ویڈیوز پر کارروائی عمل میں لائیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں اور عدالت میں ان پر کارروائی جاری ہے اور پانچ ملزمان جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔ جج نے درخواست گزار سے کہاکہ آپ کی استدعاکے مطابق دہشت گردی کی دفعات شامل کرلی گئیں ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ اس میں ایجنسیوں کو بھی شامل کیا جائے اور جے آئی ٹی کا سربراہ آئی ایس آئی آفیسرکو بنایا جائے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ قانون کے مطابق پولیس افسر جے آئی ٹی کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے، فوجی عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے لئے دائر درخواست میں درخواست گزارکے وکیل نے دوران سماعت بات کرنے کی کوشش کی تو فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت جس کو اجازت دے گی وہ بات کرے گا عدالت کو مچھلی منڈی بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق چلتی ہیں خواہشات پر نہیں عدالتیں قانون کی تشریح کرسکتی ہیں قانون بنانہیں سکتیں۔ فاضل عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ کو کیس کی مفصل تحقیقاتی رپورٹ سمیت طلب کرتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کر دی۔ دریں اثناءلاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں گرفتار مرکزی ملزم عامر حسیم سمیت مزید 7ملزمان کو 27دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا۔ قبل ازیں 5ملزمان کا 28روزہ جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان بچوں کو ڈرا دھمکا کر زیادتی کا نشانہ بناتے اور ان کی ویڈیو بناکر انہیں بلیک میل کرتے تھے۔ ملزمان میں یحییٰ، وسیم، تنزیل الرحمن، عتیق الرحمن اور عبیدالرحمن وغیرہ شامل ہیں۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے تفتیشی آفیسر کو آئندہ سماعت پر تمام ملزموں کو اکٹھے پیش کر کے تفتیش کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ دوسری جانب قصور سکینڈل کے مزید 24 متاثرہ خاندان سامنے آگئے۔ متاثرین کی جانب سے مقدمات کے اندراج کیلئے درخواستیں تیار کرلی گئیں۔ این این آئی کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ میڈیکل تو بعد کا مسئلہ ہے پہلے ان ویڈیوز پر کارروائی عمل میں لائیں، اگر ویڈیوز مصدقہ ہیں تو پولیس مقدمات درج کرنے ےس کیوں گریزاں ہے۔ دوران سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے عدالت کو بتایا کہ اب تک 30ویڈیو کلپس ملے ہیں جن کی روشنی میں کارروائی جاری ہے۔ دریں اثناءحکومت پنجاب کے ترجمان نے بتایا ہے کہجوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے قصور واقعہ کی تفتیش کا کام شروع کردیا۔ وزیرِاعلی کی ہدایت کے مطابق مقدمات کی تفتیش موقع پر کی جائے گی۔ مدعی اور گواہان کے بیانات قلمبند کرے گی۔ اس سلسلے میں عوام کی طرف سے کسی بھی قسم کی معلومات یا شواہد فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ مدعی اور گواہان کی سہولت کیلئے متاثرہ گاﺅں سے جے آئی ٹی کے دفتر تک ٹرانسپورٹ کی مفت سہولت فراہم کی جائیگی اورجے آئی ٹی تفتیش مکمل ہونے تک اپنا کام جاری رکھے گی۔ جے آئی ٹی یوم آزادی سمیت تمام سرکاری تعطیلات میں کام جاری رکھے گی۔

ای پیپر-دی نیشن