ملا عمر کی موت پر القاعدہ سمیت دیگر عسکریت پسند تنظیموں میں انجانی خاموشی چھائی ہے: بی بی سی
لندن (این این آئی) بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر کی موت کا اعلان ہوئے دس دن سے زیادہ ہوگئے لیکن تاحال جماعت الاحرار کے علاوہ القاعدہ سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں کی طرف سے ان کی موت پر کوئی تعزیتی بیان سامنے نہیں آیا، جس سے بظاہر عسکری تنظیمیں کشمکش کا شکار نظر آتی ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق شاید یہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ دنیا بھر کے شدت پسندوں کیلئے ’ امیر المومنین اور ایک روحانی پیشوا، کا درجہ رکھنے والے ملا عمر کی موت کا اعلان ایسے ڈرامائی انداز میں ہوگا۔یہ بھی کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ تقربباً دو دہائیوں تک ایک امیر کے تحت متحد رہنے والی تنظیم ملا عمر کی وفات کے ساتھ ایسے اختلافات کا شکار ہوجائے گی اور امارت کے معاملے پر حالات اتنے سنگین ہو جائیں گے کہ ایک دوسرے کو تسلیم تک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ بلاشبہ ملا محمد عمر پاکستان سے لے کر افریقہ، الجزائر، عراق، شام، فلسطین، ازبکستان اور یمن تک شدت پسند تنظیموں کیلئے امیر کا درجہ رکھتے تھے اور یہ تمام تنظیمیں نہ صرف ان کی بیعت کرچکی تھیں بلکہ ان کے ایک اشارے پر مر مٹنے کیلئے بھی تیار تھیں۔بیشتر ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں ملا عمر سے ایک لگاؤ بھی رکھتی تھی جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دس پندرہ برسوں کے دوران کبھی کسی تنظیم نے ’امیر المومنین، کی کبھی کوئی مخالفت نہیں کی۔ تاہم ان کی موت کے بعد جس طرح عسکری تنظیموں میں ایک انجان سے خاموشی چھائی ہوئی ہے اس سے ایک تذبذب کی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا شدت پسند تنظیمیں کسی اور طرف جانے کا ارادہ رکھتی ہے یا وہ حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔ پشاور کے سینئر صحافی عارف یوسفزئی کے مطابق حیران کن بات یہ ہے کہ شدت پسند تنظیموں کی جانب سے دیگر موضوعات پر تو مسلسل میڈیا کو بیانات جاری کئے جارہے ہیں تاہم ملا عمر کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ امکان یہ بھی ہے کہ شدت پسند اپنے طور پر ان کی موت کی تحقیقات کررہے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد ہی کوئی بیان جاری کریں گے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان میں اختلافات کا براہ راست فائدہ شدت پسند تنظیم داعش کو ملنے کا امکان ہے جو آج کل افغانستان زیادہ سرگرم نظر آتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جب تک افغان طالبان آپس کے اختلافات ختم نہیں کریں گے اس وقت صورتحال ایسی ہی کشمکش کا شکار رہے گی۔ عرب جنگجوؤں کی جانب سے ان کی موت پر خاموشی حیران کن ہے۔