پاکستان‘ افغانستان کا دہشت گردی کیخلاف مل کر کوششوں پر اتفاق
اسلام آباد (نیٹ نیوز/ بی بی سی + رائٹر) پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں اعلیٰ سطح کا افغان وفد پاکستان پہنچا ہے۔ وفد افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کی سربراہی میں افغان انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل، نیشنل سکیورٹی کے مشیر حنیف اتمر اور نگران وزیر دفاع معصوم ستنکزئی پر مشتمل ہے۔ افغان وفد نے وزیراعظم نوازشریف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقات کے دوران سرتاج عزیز نے کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ مفاہمت کو نقصان پہنچانے والے اور بداعتمادی پیدا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں وفود نے کھلے پن اور صاف گوئی کے ساتھ گفتگو کی۔ رحمت اللہ نبیل کو پاکستان افغانستان تعلقات خراب کرنے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ دوطرفہ مذاکرات کے دوران باہمی تعلقات، افغانستان میں سیاسی و سلامتی کی صورتحال اور افغان گروپوں کے درمیان مفاہمت سمیت متعد امور پر بات چیت کی گئی۔ سرتاج عزیز نے پاکستان کی قیادت کی طرف سے افغانستان کے ساتھ تعمیری اور مثبت تعلقات کے قیام کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس سلسلے میں افغانستان سے تمام تر تعاون پیشکش کی بھی پھر یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کی مذمت کی۔ افغان وزیر خارجہ نے تمام شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردی کے انسداد اور امن کے قیام کیلئے مشترکہ کوششیں درکار ہیں۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کیلئے اعلیٰ سطح کے روابط قائم رکھنے پر اتفاق کیا۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے دوسرے رائونڈ کے امکانات بھی زیر غور آئے اور طے پایا کہ اس سلسلے میں طالبان کے جواب کا انتظار کیا جائے جنہوں نے دوسرا رائونڈ خود مؤخر کرنے کی استدعا کی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغان صدر کے پاکستان کے خلاف حالیہ انتہائی تلخ بیانات کے بعد افغان وفد اسلام آباد پہنچا ہے۔ افغان صدر نے کہا تھا کہ پاکستان سے جنگ کے پیغامات آرہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق ملاقات میں پاکستان افغان تعلقات، افغانستان میں سکیورٹی صورتحال، افغانستان میں امن و استحکام کے حوالے سے مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ دونوںممالک کو اعتماد کا رشتہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے ہرممکن تعاون کیلئے تیار ہیں پاکستان افغانستان تعلقات خراب کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ دونوں ملک باہمی اعتماد اور یقین کے ساتھ آگے بڑھیں۔ پاکستان افغانستان سے مل کر تمام چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام کی جدوجہد میں کردار ادا کرتے رہیں گے۔ افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان پاکستان سے مشترکہ مفاد کے تمام شعبوں میں تعاون کا خواہاں ہے۔ پاکستان اور افغانستان نے سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی بنانے اور انسداد دہشت گردی کیلئے مشترکہ کاوشوں میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔ افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان وزیر خارجہ سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔ کابل میں افغان صدارتی ترجمان سید ظفر ہاشمی نے وفد کے دورے سے قبل صحافیوں کو بتایا تھا کہ افغان وفد پاکستان میں موجود کابل میں حالیہ انتہا پسند حملوں سے منسلک عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گا۔ ہم پاکستان سے مطالبہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے اندر موجود ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے افغان عوام کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اعلیٰ سطح کے وفد سے ملاقات کا فیصلہ افغان صدر، وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف سے فون پر بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ’دونوں ملکوں میں اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لیے فیصلہ کیا گیا تھا کہ میڈیا کے ذریعے سفارت کاری نہیں کی جائے گی، مگر کابل میں پے در پے حملوں نے افغان صدر کو پریشان کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے سخت زبان استعمال کی، پھر پاکستان نے اس کا جواب دیا۔ مگر ان اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ رائٹر کے مطابق پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا ہے کہ افغان وفد افغان طالبان کے ساتھ معطل ہونے والے مذاکرات کی بحالی پر بات کرنے کیلئے آیا ہے۔ افغانستان میں حملے افغان طالبان کی قیادت کی تبدیلی کے بعد ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد ملا محمد اختر منصور کی جانب سے یہ ظاہر کرنا ہے کہ عسکریت پسندی میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ سرتاج عزیز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یقینی طور پر ہماری ترجیح مفاہمت ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ وہ صدر اشرف غنی کے غصہ کو سمجھتے ہیں اور توقع ہے کہ مذاکرات میں غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ ظاہری طور پر وہ اس بات پر مایوسی کا شکار ہیں کہ دھماکے اور مذاکرات دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔