جنرل ظہیر الاسلام اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے : وزیر ماحولیاتی تبدیلی‘ مشاہد اللہ کا بیان بے بنیاد ہے : پرویز رشید‘ فوجی ترجمان‘ وزیراعظم نے وضاحت مانگ لی
اسلام آباد (بی بی سی + وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم ہاﺅس کے ترجمان، وزیر اطلاعات پرویز رشید اور فوجی ترجمان نے مشاہد اللہ خان کے بی بی سی کو انٹرویو میں دیئے جانے والے بیان کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ ٹیپ ریکارڈنگ سے متعلق خبریں بے بنیاد اور حقیقت سے بہت دور ہیں، ان خبروں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں انہوں نے کہا کہ ایسے بیانات غیر ذمہ دارانہ ہیں، آڈیو ٹیپ کا سچائی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ دریں اثناءوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ سینیٹر پرویز رشید کی طرف سے وفاقی وزیر موسمیاتی تغیرات سینیٹر مشاہد اللہ خان کے انٹرویو میں کی گئی گفتگو کی سختی سے تردید کی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ یہ واقعہ من گھڑت اور حقیقت سے دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی وضاحت ترجمان وزیراعظم نے بھی پیش کردی ہے جو 100 فیصد درست ہے۔ مبینہ ٹیپ کے تذکرہ کے حوالے سے سینیٹر پرویز رشید نےکہا کہ کسی قسم کی نہ کوئی مبینہ ٹیپ سُنی اور نہ ہی سُنائی گئی‘ وزیراعظم ہا¶س نے سینیٹر مشاہد اللہ سے وضاحت طلب کرلی ہے جس سے عوام اور میڈیا کو آگاہ کردیا جائے گا۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ان کے علم میں نہیں کہ اس قسم کی بات سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا ں سے سُنی۔قبل ازیں ترجمان وزیراعظم ہاﺅس کا کہنا ہے کہ جس ٹیپ کا ذکر کیا گیا، اس کا کوئی وجود نہیں۔ وزیراعظم کو ایسے کسی ٹیپ کا علم نہیں نہ ہی یہ کسی کو سنائی گئی۔ پرویز رشید کا کہنا تھا کہ پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ یہ واقعہ حقائق سے دور ہے۔ دھرنوں کے وقت میں وزیراعظم کے ساتھ ہوتا تھا، ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ قبل ازیں بی بی سی کو ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ مشاہد اللہ خان کے بقول اس سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان کے سویلین انٹیلی جنس ادارے انٹیلی جنس بیورو نے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاو¿س پر قبضہ کرنا ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 28 اگست کی شام وزیراعظم نوازشریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انہیں سنائی۔ انہوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو اسی میٹنگ میں وزیراعظم کے سامنے طلب کر کے وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز آپ ہی کی ہے اور جنرل عباسی کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ آواز انہی کی ہے، جنرل راحیل نے انہیں میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔‘ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ ٹیپ اور اس کے علاوہ بھی اس وقت حکومت کو مختلف ذرائع سے جو اطلاعات مل رہی تھیں وہ بہت خوفناک تھیں اور اس وقت تیار ہونے والی سازش کے نتیجے میں بہت تباہی ہونی تھی۔ مشاہد اللہ کے بقول اس وقت جو سازش تیار کی جا رہی تھی اس کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نواز شریف نہیں تھے بلکہ یہ سازش بری فوج کے سربراہ کے خلاف بھی تھی۔ مشاہد اللہ نے کہا کہ 31 اگست کے روز انٹیلی جنس بیورو اور بعض دیگر ذرائع سے حکومت کو خبر ملی کہ اسلحے سے بھری دو گاڑیاں وزیراعظم ہاو¿س کی طرف آ رہی ہیں۔ اس وقت تک پی ٹی وی پر قبضہ ہو چکا تھا اور لوگ سیکرٹریٹ اور وزیراعظم ہاو¿س کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ’ایسے میں حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وزیراعظم کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ فوج ہی کے ایک افسر نے دو گاڑیوں کو پکڑا جو وزیراعظم ہاو¿س جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مشاہد اللہ نے کہا کہ فوج بطور ادارہ حکومت کے خلاف اس سازش میں شامل نہیں تھی۔ بعض بہت موثر اور سینیئر جرنیل اس سازش میں ملوث تھے، جن میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام بھی شامل ہیں۔ دریں اثناءوفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے بی بی سی کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے انٹرویو دیا تھا۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے دھرنے میں کردار کے بارے ضمناً بات ہوئی تھی۔ جسے سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کر دیا گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اس بارے میں باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن میرے پاس کوئی ثبوت نہیں‘میں نے جنرل ظہیر کے کردار کے حوالہ سے کوئی بات نہیں کی۔ آن لائن کے مطابق سینیٹر مشاہد اللہ نے نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ انہوںنے نہ کوئی ایسی ٹیپ سنی اور نہ ہی اس کا علم ہے، نشریاتی ادارے نے ان کی کچھ باتیں ایڈٹ کرلیں اورکچھ نشرکردیں۔ میرے ساتھ یہ باتیں منسوب کرکے میرے لئے پریشانی کھڑی کر دی ہے، میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ میں نے صرف یہ کہاتھاکہ اس وقت اس طرح کی ٹیپ کے بارے میں مختلف باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے سرکاری طورپرنہ کوئی ٹیپ سنی ہے اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے۔ یہ باتیں سیناگزٹ کی طرح چل رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے کہا تھاکہ لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ ملاقاتوں میں موجود نہیں تھا جو سنا انٹرویو میں کہہ دیا۔ دھرنوں کے بارے میں جو اطلاعات تھیں وہ سب کے علم میں تھیں۔ پی ٹی وی پر قبضے اور سازشوں سے متعلق کئی سیاستدان ذکر کرتے رہے ہیں۔ میں نے الزام نہیں لگایا جو خبریں گردش میں تھیں وہ بتائیں۔ ایک دوسرے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ میں ملاقاتوں میں نہیں تھا جو سنا وہ انٹرویو میں کہہ دیا ابھی تک مجھ سے کسی نے وضاحت نہیں مانگی جو کوئی پوچھے گا میں کہوں گا جو اب کہہ رہا ہوں۔ ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ مشاہد اللہ کی وضاحت کافی نہیں۔ وزیراعظم خود وضاحت کریں، حکومتی وزراءملکی اداروں کو بدنام کر رہے ہیں۔ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ معاملات کی انکوائری ہونی چاہئے۔ بیان کے پیچھے بہت بڑی سازش نظر آتی ہے۔ مشاہد اللہ جیسے لوگوں کے ہوتے ہوئے ملک کو دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔
مشاہد اللہ/ تردید