شیر علی کے الزامات نے مسلم لیگ ن کی ساکھ کو متاثر کیا، حقائق سامنے آنے چاہئیں
فیصل آباد (خصوصی رپورٹ: احمد جمال نظامی) یوم آزادی کے موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے دو سرکردہ اور مخالف دھڑوں چوہدری شیرعلی اور رانا ثناء اللہ کی طرف سے الزامات کی بوچھاڑ نے پنجاب کے دوسرے بڑے سیاسی مرکز فیصل آباد میں نہ صرف سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے بلکہ حکمران قیادت آئندہ اس ضمن میں کیا اقدام اٹھائے گی، بہت سارے سوالات کو لاکھڑا کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں پنجاب کے دوسری مرتبہ وزیرقانون بنائے گئے ہیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ تیسری مرتبہ وزیرقانون بنے ہیں لہٰذا ان کی پنجاب حکومت میں اہمیت اور قدکاٹھ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا خاص کر کے جب ہر طرف سے اور خود پارٹی کے اندر موجود ارکان اسمبلی تک اس بات کا اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب رانا ثناء اللہ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ چند سال پہلے جب لاہور میں رانا ثناء اللہ کے بارے میں پلازہ سکینڈل سامنے آیا تھا تو اس وقت بھی خادم پنجاب نے رانا ثناء اللہ کے حق میں بیانات دیئے تھے اور کہا تھا جمہوریت کے لئے ان کا کردار لائق تحسین ہے۔ اس مرتبہ مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما سابق میئر اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری شیرعلی کی طرف سے رانا ثناء اللہ پر اس طرح کے سخت الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ حکومت پنجاب اور مسلم لیگ(ن) کو پورے ملک میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے فی الوقت اور مستقبل میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور پڑ رہا ہے ۔ فیصل آباد میں مسلم لیگی رہنما بھولا گجر جو ایک عرصہ تک چوہدری شیرعلی کے ساتھ رہے اور پھر انہیں چھوڑ کر رانا ثناء اللہ گروپ میں شامل ہو گئے تھے ان کے قتل کے بعد بہت سارے محاذ کھل کر سامنے آ گئے۔ علی کمانڈو کے نام سے پولیس نے ایک ٹارگٹ کلر کو گرفتار کیا جس نے مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو بھی قتل کرنے کا انکشاف کیا ۔ اس کیس میں فیصل آباد سے پولیس کا ایک انسپکٹر رانا فرخ وحید ملک سے فرار ہو گیا ۔شہر میں بلاشبہ مختلف قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں لیکن چوہدری شیرعلی مسلم لیگ(ن) کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن ہیں، شریف برادران سے ان کی عزیزداری بھی ہے اور وہ سابق میئر ہیں۔ وزیرمملکت عابد شیرعلی کے والد ہیں ان کی طرف سے ایک صوبے کے وزیرقانون اور وہ بھی ان کی جماعت کے وزیر کے بارے میں ایسے الزامات نے مسلم لیگ(ن) کی ساکھ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے مستقبل میں اور موجودہ وقت میں بہت سارے ایسے مسائل آ کھڑے ہوئے ہیں جن میں سرفہرست یہ مسئلہ ہے کہ یہ مطالبہ سیاسی حلقوں کی زبان زدعام پر آنے لگا ہے کہ کیا رانا ثناء اللہ کو مزید وزیرقانون رکھا جا سکے گا؟ چوہدری شیرعلی کے الزامات نے رانا ثناء اللہ سے زیادہ مسلم لیگ(ن) کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں ۔ رانا ثناء اللہ کو پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ(ن) میں چوہدری شیرعلی ہی لائے تھے اور ان پر مسلم لیگ(ن) کے سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن نے قاتل ہونے کا الزام عائد کر دیا جس کے بعد اصل حقائق حکومت پنجاب کو اور وفاقی حکومت دونوں کو سامنے لانا ہوں گے سابق وفاقی وزیرداخلہ اور ممتاز مسلم لیگی رہنما میاں زاہد سرفراز چند ماہ قبل ایک پریس کانفرنس میں ایسے ہی الزامات عائد کر چکے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق شانی جٹ کے بارے میں ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ شاید اس کے پاس مارے جانے والے اشتہاری خرمی باجوہ کے پیسے موجود ہیں۔ پولیس ذرائع اس کیس میں جب خرمی باجوہ کے مارے جانے کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جنرل پرویزمشرف کے دور میں چک جھمرہ کے باجوہ گروپ کے ساتھ سیاسی طور پر اس وقت کے ساہی برادران کے رابطوں کو خود رانا ثناء اللہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر ہونے کی حیثیت سے بے نقاب کرتے تھے اور کہتے تھے چک جھمرہ اشتہاریوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ بنایا جا چکا ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر بھولا گجر اور رانا فرخ وحید میں اختلافات کا پیدا ہونا اور پھر رانا فرخ وحید کا ملک سے فرار ہونا، علی کمانڈو شوٹر کا گرفتار ہو کر رانا فرخ وحید کے کہنے پر بھولا گجر کو قتل کرنے کا انکشاف کرنا اور چوہدری شیرعلی کی طرف سے صوبائی وزیرقانون رانا ثناء اللہ کو اس کیس میں ملوث کرتے ہوئے الزامات کی بوچھاڑ کرنا ایسا معاملہ ہے جس نے اس کیس کو بہت زیادہ سنگین اور حساس نوعیت کا بنا دیا ہے۔ اس پر ذرائع کے مطابق حکومت کو چوہدری شیرعلی اور رانا ثناء اللہ دونوں کی سیکورٹی میں خاطرخواہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں مکمل طور پر ایسے تمام الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور وہ بالکل مطمئن ہیں اور ان کو یقین ہے وہ بے گناہ ہیں ۔ دونوں دھڑوں نے اپنی ہی جماعت کی وہ حجامت کی کہ آج تک پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کئی بندے جاں بحق ہونے کے باوجود عوامی تحریک نہیں کر سکی۔ رانا ثناء اللہ کو چاہیے وہ چوہدری شیرعلی سے صلح میں پہل کر دیں اور اپنا شہبازشریف کے ساتھ اس ضمن میں سیاسی تعلق استعمال کریں وگرنہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے دوران اس کیس میں حالات کی جو سنگینی نظر آ رہی ہے سیاسی طور پر مسلم لیگ(ن) کو نقصانات ہونے کے خدشات کے علاوہ متوقع بلدیاتی انتخابات کے دوران عام شہریوں اور مسلم لیگی کارکنوں کے دھڑوں کے درمیان لڑائی جھگڑے، مارکٹائی اور خونریزی کے واقعات کے رونما ہونے کے بہت زیادہ خدشات ہیں۔