قصور اور پاکستان
قصور کے سانحے کے بعدپنجاب حکومت نے روایتی انداز میں چند پولیس افسران کو معطل کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ پنجاب حکومت کی خوش قسمتی کہ ماڈل ٹائون کے سانحے کی طرح اس بار کسی نے صوبائی حکومت پر براہ راست الزام نہیں لگا دیا ۔ایسے میں ایک وزیراعلٰی ایک ہی گائوں کے تین سو بچوں کے ساتھ زیادتی پر اور کیا کرتا۔ پاکستان کے سب سے بڑے آبادی والے صوبے کے ایک گائوں میں دس سال تک معصوم بچوں سے ان کا بچپن چھینا جاتا رہا اور سینکڑوں خاندانوں کے علم میں ہوتے ہوئے بھی اس راز کا پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ اور سی آئی ڈی کو نہ پتہ چلا۔ایسے میں اس صوبے کے خادمِ اعلٰی کا کیا قصور ہے یا ان کے صوبائی وزراء یا مقامی رکن قومی اسمبلی ملک امجد سعید جو بیچارے متاثرہ گائوں گنڈا سنگھ والا میں دس سال تک صرف ووٹ مانگنے جاتے تھے اور متاثرہ خاندانوں سمیت اس گائوں کے لوگ خوشدلی اور رضاکارانہ طور پر شیر کو ووٹ دیتے رہے۔ہمارے شریف النفس نمائندوں کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارے معاشرے اور گائوں میں کوئی جانور صفت انسان معصوم بچوں کے ساتھ ایسی درندگی بھی کر سکتا ہے۔
قصور سانحے میں ایک بڑا المیہ متاثر خاندانوں کی خاموشی تھی۔اس خاموشی کی بڑی وجہ ہمارے معاشرے اور نظام عدل کی ایسے مظالم میں منافقت اور بے بسی ہے ۔ ایسے متاثرین کا ہمارے معاشرے میں سامنے آنا معاشرتی خودکشی سمجھا جاتا رہا ہے۔عزت ، غیرت، وقار اور ساکھ کے نام پر ہم لوگ ایسے مظالم سہنے اور ان پر خاموش رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ عزت اور غیرت کے ایسے ہی خود ساختہ فلسفے کو ہم لوگوں نے تمام دوسری قسم کے مظالم بھی سہنے کا جواز بنا لیا ہے ۔قصور میں کچھ متاثرین اپنی ’’ساکھ‘‘بچانے کی خاطر ظلم سہتے رہے ۔ کچھ دوسرے اپنے اور دوسروں پر ہونے والے مظالم پر خوف کے مارے خاموش رہے۔ مگر کیا خاموشی سے ظلم سہنے کی عادت صرف قصور کے متاثرہ گائوں کے لوگوں میں ہی ہے ۔یقینا نہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ روش اور رویہ ہم نے بحیثیت قوم پورے ملک میں اپنایا ہوا ہے۔ اس معاشرتی منافقت کو صرف قصور میں نہیں پورے پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے اور یہی معاشرتی منافقت ہماری سیاسی سوچ پر بھی غالب آتی ہے جب ہم جانتے بوجھتے ہوئے مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دیتے ہیں اور اسے ووٹ دے کر اپنے کنبے ، برادری، خاندان اور قبیلے کی عزت و وقار کا جھنڈا بلند کرتے ہیں۔ اس منافقت کے نتیجے میں جو حکمران ہم پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں وہ بھی اپنے اقتدار اور اپنی حکومت کو بچانے کی خاطر جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموشی اپناتے ہیں۔
اب حال ہی میں دھرنے سے متعلق پی ٹی آئی کے بریگیڈئیر (ر)سائمن سیمسن شیرف اور پھر وفاقی وزیر مشاہد اللہ کے بیانات اور اس پر حکومتی ردعمل کو دیکھ لیں۔
سب سے پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بڑے ٹی وی چینل کے بڑے صحافی کے پروگرام میں یہ رونا رویا کہ دھرنے میں سیاسی نظام اور انکی حکومت کے ساتھ سازش کی گئی جس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر)ظہیر الاسلام شامل تھے۔مگر اس بڑے ٹی وی چینل اور بڑے صحافی نے خواجہ آصف کے انٹرویو کے یہ حصے کاٹ دئیے۔بالکل اسی طرح جس طرح قصور کے مقامی تھانے کے مقامی محررنے متاثرہ بچوں اور والدین کی درخواستوں کا حشر کیا۔اس کے بعد شہباز شریف نے بھی دھرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیامگر متاثرہ شہباز شریف کی اپنوں نے بھی نہ سنی۔پھر وقت نیوز پر میرے پروگرام اپنا اپنا گریبان میںبریگیڈئیر (ریٹائرڈ) سائمن شیرف نے وہ دعوٰی کر دیا کہ کچھ اینکرحضرات اور بہت سے سیاست دان قصور کے بچوں کی مانند سینے میں راز کی صورت لیے پھرتے رہے۔خواجہ آصف کے بیان کے بعد سائمن شیرف کا یہ کہنا کہ دھرنا حکومت کے خلاف ہی نہیں آرمی چیف کے خلاف بھی ایک سازش تھا ، بے بنیاد نہیں لگا۔اس مبینہ سازش کا انکشاف وزیراعظم نے آرمی چیف کے ساتھ ایک مبینہ ملاقات میں خفیہ آڈیو ٹیپ سنا کر کیا جس میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی مبینہ گفتگو بھی شامل تھی۔حکومت نے اس مبینہ ملاقات اور آڈیو ٹیپ کی واضح تردید نہیں کی اور اسی دوران وفاقی وزیر مشاہد اللہ نے بی بی سی کو انٹرویو میں یہ باتیں دہرائیں۔ ایک سابق بریگیڈئیر اور تحریک انصاف کے اپنے ہی لیڈر کے انکشافات جب بظاہر برداشت ہو گئے تو وزیر موصوف (یا حکومت) نے '' مشاہداللہ کے ذریعے بچائو بچائو بچائو"کا نعرہ تو بلند کیا مگر اب اسلام آباد کے بچوں اور انکے سرپرست آئینی اداروں کو اپنے اپنے الزامات واپس لینے کا پیغام آگیا ہے۔الزام لگانے والا ایک بچہ گھر سے نکال دیا گیا ہے اور دوسرا بھائی شور ڈال رہا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔ ایک اور بھائی نے متوقع پریس کانفرنس ہی منسوخ کر ڈالی ہے۔گھر کے سربراہ کی طرف سے ابھی خاموشی ہے۔ ایسے میں 21ویں صدی کے چند تیس مار خان صحافی اور تجزیہ کار بھی گائوں کی بات گائوں تک رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ماتم تو اس تجزیہ کار کی عقل پر کرنے کو دل کرتا ہے جو آپس میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ اگر مشاہداللہ نے یہ انٹرویو بی بی سی کی بجائے کسی پاکستانی میڈیا کو دیا ہوتا تو مناسب تھا۔ہم بحیثیت قوم آج تک اپنی عزت و وقار کو ایسے ہی بچاتے رہے ہیں جس طرح قصور کے مظلوم اور متاثرہ بچے اور انکے خاندان۔
کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے بلی چلی نہیں جاتی اور نہ ہی شتر مرغ کی طرح سر ریت میں گاڑھ دینے سے خطرہ ٹل جاتا ہے۔ہماری فوج جن اندرونی اور بیرونی طوفانوں سے گزری ہے یہ اتنی مضبوط اور طاقتور ادارہ بن چکی ہے کہ چند جرنیلوں کے خلاف معمول کی تحقیقات اور کارروائی سے نہ تو اسکے حوصلوں پر فرق پڑے گا اور نہ ہی اسکی یکجہتی پر۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے آئینی ادارے اور ہماری نمائندہ حکومت دو میں سے ایک کام کریں ،کھل کر جھوٹ بولیں یا کھل کر سچ بولیں ۔ یعنی جو بھی کہنا ہے وزیراعظم از خود ٹی وی پر آکر دیکھ لیں۔جو عوامی حکومت خود پر ہونے والی زیادتی کے خلاف بھی کھل کر آواز نہ اٹھائے وہ حکومت قصور کے بچوں کو کیا انصاف دلائے گی۔اگر ہماری حکومت طاقتور فوجی آمروں اور طالع آزما جرنیلوں کا احتساب نہیں کر سکتی تو پھر دھرنے کے بعد برطرف شدہ پولیس افسران کا کیا قصور ہے۔ اس سے پہلے بھی جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن امریکی حملے میں قتل ہوا تو کوئی پٹواری یا تھانیدار معطل کر دیا گیا تھا۔ کیا ہماری منتخب حکومتوں کی یہی اوقات ہے؟