’’استعفے حکومت کے منہ پر ماریں اور اپنی بات منوا لیں‘‘
ہمارے پیارے ملک پاکستان میں روز نت نئے شعبدے ہوتے رہتے ہیں اور ہمارے سیاسی شعبدوں نے تو وہ منظر باندھ رکھا ہے کہ خدا کی پناہ۔ آپ کسی بھی مطالبہ کی منظوری کے لئے اس یقین سے مستعفی ہو جائیے کہ منظور تو اس نے ہونا نہیں البتہ آپ کا مطالبہ چاہے وہ کتنا ہی غیر آئینی ہو، ملک دشمنی پر مبنی ہو، غیر دانشمندانہ ہو منظور ہو جائے گا۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ بہت طاقتور ہیں یا آپ کا مطالبہ بہت منطقی ہے بلکہ اس کی وجہ ہے کہ ہمارا نظام کمزور ہے اور ہماری منتخب حکومت کمزور تر ہے۔ ایسا کیوں ہے اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں اہم ترین بات یہ تھی کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے علاوہ ایک تیسری تیزی سے ابھرتی ہوئی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی حصہ لے رہی تھی۔ عمران خان جنہوں نے 30اکتوبر 2012ء کو لاہور میں ایک تاریخی جلسہ منٹو پارک میں کر کے نواز لیگ اور اس کی قیادت کو بدحواس کررکھا تھا انتخابی نتائج کو علاوہ خیبر پختونخواہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس الزام کو لے کر کہ نواز شریف نے منظم دھاندلی کرائی اور پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چرایا عمران نے اس ملک میں دھرنا سیاست کو متعارف کرایا ہماری مراد طویل مدت کے احتجاجی دھرنوں سے ہے۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر جو بہت حربوں کے بعد کئی معاہدے توڑ کر ڈی چوک پہنچ گئے تھے عمران نے یہ نعرہ بلند کیا کہ وہ نواز شریف کے استعفیٰ کے بغیر احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ جب انہیں گھی سیدھی انگلیوں سے نکلتا نظر نہ آیا تو انہوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی اور سادہ زبان میں کوئی ایسی گالی ایجاد نہیں ہوئی جو انہوں نے ایوانوں اور ان کے اندر بیٹھے عوامی نمائندوں کو نہ دی ہو۔ جب دھمکیوں سے کام نہ بنا تو عوام کو دھرنوں میں بٹھائے رکھنے کی خاطر انہوں نے پنجاب اور سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی سے اپنے منتخب ارکان کو مستعفی ہونے کا حکم دیا تاہم انتہائی چالاکی یا یوں کہہ لیں پارٹی مفاد کے پیش نظر کے پی کے میں اپنی حکومت ہونے کے باعث وہاں انتخاب کو غیر جانبدارانہ اور شفاف مانتے ہوئے مستعفی ہونے سے گریز کیا، شاید اس لئے کہ اس صوبے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا کنٹینر پر کھڑے ہو کر پشتو گانے پر رقص کرنا زیادہ ضروری تھا۔ وہ سرکاری وسائل بے دریغ خرچ کر کے دھرنوں کی رونق بڑھانے کا قومی فریضہ پورے جوش و خروش سے ادا کرتے رہے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ عمران کو آرمی پبلک سکول پرخودکش حملوں کے نتیجے میں غیرت مندانہ طریقے سے دھرنوں سے نجات ملی جو طویل ہونے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھوتے جا رہے تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے استعفوں کا کیا ہوا، پہلے پہل تو عمران خان نے نیم دلی سے ان کے منظور کئے جانے کا مطالبہ کیا۔ بعدازاں تمام ارکان اسمبلی نے اپنی تنخواہیں اور مراعات وصول کرلیں اسی دوران جب پی ٹی آئی کے ارکان ایوان میں واپس آئے تو جو ان کا خیرمقدم ہوا وہ بھی تاریخی تھا خواجہ آصف نے ’’کچھ شرم کرو، کچھ حیا کرو، کچھ غیرت کرو جیسے طعنوں سے ناک میں دم کردیا اور جو خفت پی ٹی آئی کے حصے میں آئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان خود اب تک ایوان میں آنے کی جرأت نہیں کر سکے۔ پی ٹی آئی کے استعفوں کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی نواز حکومت نے تشکیل دی اور جو طریقہ کار سپیکر ایاز صادق نے اپنایا وہ ناقابل فہم تو ہے ہی وہ غیر منطقی بھی ہے بے چارے سپیکر صاحب دو سال سے زیادہ پی ٹی آئی کے پریشر میں رہے ایسے لگتا تھا ان کی نشست آج گئی کہ کل گئی۔ انہوں نے شاید آنے والے وقت میں مزید شرمندگی سے بچنے کی خاطر پی ٹی آئی کو خوش کرنے کی غرض سے مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے الطاف حسین سے رابطہ کر کے دونوں کو اپنے ساتھ ملا کر وہ قراردادیں واپس لینے پر قائل کیا جو اگر ایوان میں ووٹنگ کے لئے پیش ہو جاتیں تو وزیراعظم کی شدید خواہش اور پارٹی کے منتخب ارکان کو ہدایت کے باوجود بھی پاس ہو جاتیں اور سپیکر کے پاس استعفیٰ منظور کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔ تحریک انصاف جب ہائوس میں واپس آئے گی تو سپیکر کے ساتھ کیا رویہ روا رکھے گی اس کے لئے زیادہ انتظار کی زحمت اٹھانی نہیں پڑے گی، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک پارٹی جس کے ارکان ایک مطالبے کی حمایت میں مستعفی ہو جاتے ہیں تو اس عمل سے جمہوریت کیسے خطرہ کا شکار ہو سکتی ہے میرے نزدیک استعفوں کا پراسیس پورا ہونے کے باوجود انہیں منظور نہ کرنے سے جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ابھی تو اس غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کی باز گشت سنی ہی جا رہی تھی کہ اس سے ملتی جلتی صورت حال سے قومی اسمبلی، سینٹ اور سندھ اسمبلی پھر دو چار ہیں اور اس مرتبہ صورت حال پی ٹی آئی کے استعفوں سے بھی زیادہ گھمبیر ہے، کراچی میں جاری رینجرز آپریشن کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس دفعہ ایم کیو ایم کے ایم پیز نے الطاف حسین کے حکم پر استعفے جمع کروا دیئے ہیں اور ایسا انداز اپنایا ہے کہ تمام تر پراسیس ایک ساتھ مکمل کردیا۔ ایسے لگا کہ ان کے استعفوں کے منظور ہونے میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب وزیراعظم بیلا روس کے دورے پر تھے لہٰذا ان کے واپس آنے تک یہ عمل روک دیا گیا، نواز شریف نے واپس آتے ہی فوراً ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس منعقد کیا اور ایم کیو ایم کے استعفے کو نامنظور کرنے کا عمل پوری شدومد سے شروع ہوگیا۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو منانے کے لئے جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ الطاف حسین سے رابطہ کر کے انہیں مجبور کریں کہ وہ اپنے اراکین اسمبلی و سینٹ کو اپنے استعفے واپس لینے کا حکم دیں۔ اس کام کے لئے مولانا کی زیر قیادت ایک کمیٹی بھی وزیراعظم نے تشکیل دے دی ہے۔ اب ذرا اس پس منظر کا احاطہ کرلیتے ہیں جو ایم کیو ایم کے اس شدید ردعمل کا باعث بنا۔ کئی ہفتوں سے الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاریوں اور ہلاکتوں کے حوالے سے ایسے بیانات جاری کئے جن سے فوج کے ساتھ تعلقات جو پہلے سے ہی کشیدہ تھے مزید تلخی پیدا ہوگئی، لہٰذا سب سے پہلے پیمرا نے الطاف کی تقاریر کی براہ راست کوریج پر پابندی لگا دی اور دوسری طرف رینجرز نے پہلے سے جاری آپریشن کی رفتار تیز کردی جس سے معاملات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوگئے، آخری حربے کے طور پر اپنے منتخب ارکان کو استعفے دینے پر مجبور کیا کیوں ایسا کرنے میں تھوڑی سی تاخیر پر انہوں نے رابطہ کمیٹی پر کڑی تنقید بھی کی اور ان کی سرزنش بھی کی۔ فوج نے ابھی تک اس صورتحال پر براہ راست تبصرہ نہیں کیا لیکن پس پردہ حکومت اور جی ایچ کیو میں رابطے ہو رہے ہوں گے، معاملہ صرف ایم کیو ایم کے استعفوں کا نہیں، فوج قربانیاں دے کر ضرب عضب اور کراچی آپریشن میں امن کی خاطر کررہی ہے اس کا مقصد کسی ایک پارٹی کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہے مگر اس کا کیا کیا جائے جس دوسرے بندے پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے وہ ایم کیو ایم کا کارکن یا سیکٹر کمانڈر نکل آتا ہے، رینجرز نے جتنی گرفتاریاں 90 پر چھاپے کے بعد سے کی ہیں ان میں سے بڑی تعداد میں اقبالی بیانات کے ذریعے تسلیم کر چکے ہیں کہ کراچی کا امن تباہ کرنے میں ایم کیو ایم کا عمل دخل ہے، فوج کے خلاف حالیہ دنوں میں الطاف حسین اور آصف زرداری نے جو لب ولہجہ اور لفاظی استعمال کی وہ بے معنی نہیں۔ کچھ مقتدر حلقوں میں اسے فوج کو ذلیل کرنے کی سازش تصور کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ استدلال بھی ہے کہ یہ سب کچھ نواز شریف کے کہنے پر ہو رہا ہے یا ایسا کرنے کی ان کی طرف سے شہ دی جا رہی ہے۔ جتنا علم راقم الحروف کو ہے ایسا نہیں لگتا کہ نواز شریف کسی صورت بھی ایسی کسی سکیم کا حصہ بنیں گے جس کا مقصد فوج کی تذلیل ہو۔ تاہم نواز حکومت کو ایم کیو ایم کے استعفوں کے حوالے سے ایسی حکمت عملی بنانی پڑے گی جس سے اس تاثر کی جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے نفی ممکن ہو سکے۔