• news

پیر ‘ یکم ذوالعقدہ 1436ھ ‘ 17 ؍ اگست 2015ء

اسامہ کا بیٹا بھی میدان میں آگیا
23 سالہ حمزہ بن لادن نے زبردست کھڑکتا بھڑکتا بیان دے کر جسطرح انٹری کی ہے اس سے لگتا ہے کہ مشرق تا مغرب ہنوز تباہی و بربادی کی سیریز چل رہی ہے اسکی ڈرامائی کیفیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اور لوگ اگلی قسط کا شدت سے انتظار کرینگے شنید ہے کہ موصوف کو القاعدہ نے اپنا نیا قائد بھی تسلیم کرلیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں دنیا بھر میں اسامہ بن لادن کے شائقین ان ہی کے خاندان کے کسی فرد کو ان کے جانشین دیکھنا پسند کرینگے اسلئے اب انہیں سامنے لایا گیا۔
اپنے اولین ارشاد میں حمزہ بن لادن نے جہادی قوتوں کو مغرب پر حملوں کا حکم جاری کیا ہے۔ ان کے اس ارشاد کے بعد اب کچھ ہوتا ہے یا نہیں مگر ایک بار پھر عالم مغرب میں مسلمانوں کے حوالے سے منفی جذبات کا جو سونامی ابھرے گا۔ اس کی زد میں آکر نجانے کتنے خاموش اور پر امن جزیروں پر تباہی پھیلے گی۔ اس کا شاید حمزہ بن لادن کو اندازہ نہیں یا پھر وہ اسکا اندازہ لگانا نہیں چاہتے۔ یہی عالم اسلام کے رہنمائوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ اپنی ناک کے آگے دیکھنا نہیں چاہتے۔
خود اسامہ بن لادن کی وجہ سے افغانستان کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔ اسامہ بن لادن نے ان ہزاروں بے گناہ افغانیوں کے مارے جانے کے باوجود اپنا وجود ظاہر نہیں کیا اطمینان سے آرام دہ اور محفوظ کمپائونڈ میں چھپے رہے۔ آج حمزہ بن لادن کی وجہ سے بھی کہیں بے گناہ ہزاروں مسلمانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں ہمیں تو اس فلم میں انکی بطور ہیرو انٹری کے بعد چار سو مولاجٹ، ریمبو تھری جیسی فلموں کے مناظر بکھرے نظر آرہے ہیں۔ جن میں سوائے کشت و خون آگ اور بارودو کے دھوئیں کے اور کچھ نظر نہیں آرہا۔ خدا عالم اسلام پر رحم فرمائے۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
مولانا فضل الرحمن استعفوں پر ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کو منائیں گے
کشمیر کمیٹی میں مولانا کی شاندار پرفارمنس سے متاثر ہو کر لگتا ہے کہ حکومت نے ایم کیو ایم کے استعفوں کو حل کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمن کی خدمات مستعار لیں ہیں۔ اب کے بارے انہیں سیاسی سفارتکاری کے جوہر دکھانے کا بھر پور موقع ملے گا۔ جو کارنامے وہ کشمیر کمیٹی کی امامت معاف کیجئے صدارت کرتے ہوئے وہ انجام نہ دے سکے اب اسکا ازالہ وہ الطاف کو مناکر حکومت کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے تاکہ ان کی مراعاتوں اور وزارتوں میں مزید اضافہ ہو۔ ہمارے وزیراعظم ویسے ہی لکھ بخش ہیں اور ابھی پی ٹی آئی کی اسمبلی میں واپسی کے مسئلہ پر جسطرح مولانا فضل الرحمن نے کلاس لی۔ اس سے بظاہر نہ سہی اندرون خانہ حکومت بہت خوش ہے۔ اور اسکا صلہ بھی ابھی مولانا نے وصول کرنا ہے۔ اگر اب وہ الطاف بھائی کو بھی رام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کوحکومت سونے چاندی میں بھی تو ل سکتی ہے۔ اگر وزن کی زیادتی آڑے نہ آئی تو۔
الطاف بھائی کو چاہئے کہ وہ مولانا کی بھارت نوازی کی قدر کریں۔ کیونکہ الطاف بھائی اور مولانا دونوں بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں بھی دونوں نے مل کر پی ٹی آئی کی واپسی کیخلاف جس مخلصانہ اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اس سے امید کی جاتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن لندن جاکر بالآخر الطاف بھائی کو مناہی لیں گے یوں حکومت کا مفاہمتی ایجنڈا کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ اور بار بار استعفے دینے قیادت چھوڑنے کے اعلانات اور ان کے واپس لینے کی بدنامی سے الطاف بھائی کی جان بھی چھوٹ جائے گی۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
داعش ہمسایہ ملک کی کٹھ پتلی ہے۔ عبدالرشید دوستم کی ہرزہ سرائی
جناب کو شاید یاد نہیں رہا ہو گا کہ کبھی طالبان اور دوستم کی ملیشیا بھی اسی ہمسائے کی انگلیوں سے بندھی ڈور پر ناچتی گاتی تھیں۔ دوستم ملیشیا کو تو ایک دوسرے ہمسائے ملک کی انگلیوں پر بھی ناچتے ساری دنیا نے دیکھا ہے۔ اور آج بھی اسکی ساری اچھل کود انہی کے دم سے ہے
آج افغانستان میں ان فرقہ پرست گروہوں نے لسانی اور نسلی و مذہبی تعصب میں مبتلا مختلف الخیال گروپوں کے جبری نکاح کی شکل میں موجودہ حکومت قائم ہے تو دولہا سے لے کر دلہن تک سب نکاح خواں پر برس کر اپنا دل ٹھنڈا کر رہے ہیں مگر اپنے طاقتور مائی باپ کے خلاف کوئی زبان نہیں کھولتا جنہوں نے انہیں اس جبری نکاح کے بندھن میں باندھ کر لوہے کی زنجیریں پہنا دیں ہیں۔ اور اب یہ کٹھ پتلیاں ان انگلیوں کے اشارے پر رقصاں ہیں۔ اب جو داعش اس غیر فطری رشتے کو ختم کر کے اس گھر پر قابض ہونا چاہتی ہے اس کے خوف سے ان کٹھ پتلیوں نے زور زور سے تھرکنا شروع کر دیا ہے اور ان کے منہ سے مسلسل ہذیان نکل رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے اکثر نے اسی ہمسائے کے آنگن میں پناہ لی اور اسی کے آنگن میں روٹی پانی کھا کر اپنی جان بچائی ہے جسکے خلاف یہ آج بول رہے ہیں۔ داعش اس خوف کا نام ہے جس نے اب افغانستان میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دئیے ہیں تو ملا عمر کی موت پہ شادیانے بجانے والوں کے گھروں میں صف ماتم بچھنے لگی ہے۔ کیونکہ ملا عمر کے مقابلے میں داعش اپنے دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک میں بہت شہرت رکھتی ہے اور دشمنوں کو پالنے کی بجائے ختم کرنے میں زیادہ مستعد ہے۔ اس کا غم دوستم سے لے کر اشرف غنی اور ان سے زیادہ عبداللہ عبداللہ کو ہے جس کی وجہ سے وہ چھری کے دیکھنے والے بکرے کی طرح بیں بیں کر رہے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…٭…

ای پیپر-دی نیشن