• news
  • image

اسٹیبلشمنٹ، الطاف حسین اور فضل الرحمنٰ

جمعیت علما ئ￿ اسلام (ف) کے امیر اور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کے ساتھ پارلیمنٹ ہا?س کی مسجد کے’’ حجرہ ‘‘ میں ہفتہ وار ’’ خصوصی نشست ‘‘ہمارے معمولات زندگی کا حصہ بن گئی ہے یوم آزادی کے موقع پر پارلیمنٹ کی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے وقت نمازیوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی مولانا فضل الرحمنٰ نے نماز جمعہ کی امامت کے بعد حسب معمول ’’حجرہ‘‘ میں محفل سجائی خصوصی نشست کے دیگر شرکائ￿ میں بزرگ صحافی سعود ساحر اور اکرم عابد قریشی شامل تھے اگرچہ خصوصی نشست میں پاک افغان تعلقات اور خطے میں طالبان کے کردار کے حوالے سے گفتگو ہوئی لیکن ایم کیو ایم کے استعفے ہی موضوع گفتگو رہے مولانا فضل الرحمنٰ کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو ’’دیوار کے پیچھے‘‘ دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ایک دور اندیش اور جہاندیدہ سیاست دان کی طرح مشکل صورت حال سے باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں شاید اس صلاحیت کی وجہ سے ہی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے انہیں ایم کیو ایم کے استعفوں سے پیدا ہونے والی صورت حال سے باہر نکلنے کا ٹاسک دے دیا مولانا فضل الرحمنٰ مشکل سے مشکل صورت حال میں ہاتھ ڈالنے کا حو صلہ رکھتے ہیں لیکن میں نے پہلی بار ان کی گفتگو میں مایوسی کو نمایاں دیکھا ان کا کہنا ہے پوری دنیا میں فیصلے کرنے کا اختیار سیاست دانوں کی بجائے ’’ نادیدہ قوتوں ‘‘ کے پا س چلا گیا ہے فیصلے ’’نادیدہ قوتیں ‘‘ کرتی ہیں لیکن ساری بدنامی سیاست دانوں کے حصے میں آتی ہے ان کا کہنا ہے اب دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کا اختیار بھی ان ’’ نادیدہ قوتوں ‘‘ کے پاس ہے لیکن سیاست دان پھر بھی اس بات پر مصر ہیں کہ وہ بااختیار ہیں وہ ایم کیوایم کے پارلیمانی سیاست سے باہر ہونے پر بھی دل گرفتہ تھے ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے 8سینیٹرز،24ارکان قومی اسمبلی اور51ارکان سندھ اسمبلی کے مستعفی ہونے سے اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آنے سے پوری بساط ہی لپیٹی جا سکتی ہے جب کہ کچھ لوگ تو ہر وقت اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کب جموریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور پھر اس میں کچھ ان کے بھی ہاتھ لگ جائے تا دم تحریر چیئرمین سینیٹ ، سپیکر قومی اسمبلی و سندھ اسمبلی نے ایم کیو ا یم کے ارکان کے استعفے منظور نہیں کئے اور وہ ان استعفوں کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں دوسری طرف حکومت نے پارلیمانی جماعتوں کی قیادت کو استعفوں کی واپسی کے لئے درمیانی راستہ تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ رینجرز دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے کے بجائے کراچی میں پی ٹی آئی اوردیگر ’’سیاسی چیلوں ‘‘کیلئے ’’سیف ہیونز‘‘بنا رہی ہے،نوگوایریاز بنا کر ایم کیو ایم (حقیقی) کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے سامنے بھی فریاد کی لیکن کہیں بھی ہماری شنوائی نہ ہوئی، ایم کیو ایم وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے ان ریمارکس پر بھی نالاں دکھائی دیتی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ مسئلہ ایم کیو ایم یا رینجرز نہیں الطاف حسین کی تقاریر کا ہے‘‘ گویا ایم کیو ایم اپنے دل میں’’ نرم گوشہ‘‘ رکھنے والے مسلم لیگی رہنما ئ￿ کے بارے میں بھی شاکی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں چوہدری نثار علی خان ایم کیو ایم اور رینجرز کے درمیان ‘‘پل‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں نے بار ہا ایم کیو ایم کے وفود کی توجہ ا؛لطاف حسین کے ان بیانات کی طرف مبذول کرائی جو وہ گاہے بگاہے لندن سے براہ راست خطاب کے دوران فوج کے کردار کے بارے میں جاری کرتے رہتے ہیں سیاسی حلقوں میں یہ سوال موضوع گفتگو بنا ہوا ہے قومی اسمبلی کے سپیکر سردارایازصادق ایم کیوایم کے 24اراکین کے استعفوں کی وصولی کے لئے بہ نفس نفیس اپنے چیمبر میں کیوں موجود تھے جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کے وقت اپنے چیمبر سے اٹھ کر چلے گئے جب مولانا فضل الرحمنٰ کو سردار ایاز صادق کا فون آیا تو انہوں نے بھی ان سے از راہ مذاق کہا کہ ’’ آپ تو ایم کیو ایم کے استعفے وصول کرنے کے لئے بڑے طمطراق سے اپنے چیمبر میں موجود تھے آخر ایم کیو ایم کے استعفے منظور کرنے میں آپ کو کیا جلدی تھی جس پرسردار ایاز صادق نے برجستہ جواب دیا ’’ مولانا صاحب آپ فکر نہ کریں میں نے استعفے قبول نہیں کئے ان کو پراسس میں ڈال دیا ہے دوسری طرف چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے براہ راست استعفے وصول کرنے سے ایم کے ایم کے لئے استعفے واپس لینے کی گنجائش پیدا کر دی ہے سپیکر کے پاس ایم کیو ایم کے تمام ارکان نے رضا کارانہ طور پر استعفے دینے کا اعتراف کر کے حکومت اور سپیکر کو مشکلات میں ڈال دیا ہے جب وزیر اعظم محمد نواز شریف بیلا روس کے تین روزہ دورے سے وطن واپس آئے تو ایم کیو ایم کے ارکان کے استعفوں سے ان کے لئے پیدا کردہ پریشانی ان کے چہرے پر عیاں تھی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نورخان ایئر پورٹ پر ان سے ملاقات کیلئے مودگی غیر معمولی بات تھی دونوں رہنما?ں نے ایم کیو ایم کے استعفوں کی منظوری کو موخر کرنے اور اسے ’’مین سٹریم ‘‘میں رکھنے کی ہر ممکن کو شش کرنے کا فیصلہ کیا پارلیمانی جماعتوں کے قائدین نے متفقہ طور پر مولانا فضل الرحمنٰ سے درخواست کی وہ اس مسئلے کی گھتیاں سلجھانے میں اپنا کردار ادا کریں مولانا فضل الرحمنٰ نے ایم کیو ایم سے استعفے واپس لینے کے لئے بات کرنے کی ذمہ داری قبول تو کرلی لیکن انہوں نے واضح کر دیا استعفوں کے بارے میں ان کا وہی موقف ہے جو تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کے بارے میں تھا اگر کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے تو وہ ضرور کردار ادا کریں گے لیکن ایک بار استعفیٰ سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی میز پر پہنچ جاتا ہے وہ واپس نہیں لیا جا سکتا،اجلاس میں مجھے بتایا گیا ہے کہ آئین کی تشریح عدالتیں کرتی ہیں جس پر میں نے آئینی و قانونی ماہرین کو بلایا ہے اور کہا کہ ان سے اس آئینی مسئلے پر مشاورت کے بعد ایم کیو ایم سے بات چیت کا فیصلہ کروں گا۔ اگر آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے تو بات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں تازہ ترین اطلاع ہے کہ وزیر اعظم کے خصوصی معاون اوشتر اوصاف علی نے مولانا فضل الرحمنٰ کو اس بات پر قائل کر لیا ہے ایم کیو ایم کے استعفوں کی واپسی کی گنجائش موجود ہے شنید ہے ا یم کیو ایم نے بھی ایوان میں واپسی کیلئے حکومت کو الطاف حسین کی تقریر ٹی وی پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے،کراچی آپریشن کی نگرانی کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی قائم کرنے،کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ روکنے، زیر حراست افراد کو قانون کی عدالت میں پیش کرنے اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کی شرائط پیش کر دی ہیں مولانا فضل الرحمنٰ حکومت سے کراچی آپریشن کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹی بنانے پر رضامند کر لیا ہے اس ایک شرط کی منظوری سے دیگر شکایات کا مانیٹرنگ کمیٹی ازالہ کر سکے گی انہوں نے الطاف بھائی سے بات کر لی ہے انہوں نے معاملہ رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے پارلیمنٹ ہا?س کی مسجد میں امام مسجد کے حجرہ میں مولانا فضل ارحمنٰ کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی کسی جماعت کو پارلیمنٹ سے باہر نکال دیا جائے ایم کیو ایم کے ارکان نے پارلیمنٹ سے استعفے حکومت کے خلاف نہیں ’’کسی اور‘‘ کے خلاف دئیے ہیں تاہم انہوں اشاراتاً ’’ ایسٹیلبشمنٹ ‘‘ کے کردار کا ذکر بھی کیا اب دیکھنا یہ ہے ایم کیو ایم اکی قیادت ایسٹیبلشمنٹ سے تصادم کی پالیسی پر کس حد تک نظر ثانی کرتی ہے اور پھر ایسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو کس حد تک راستہ دیتی ہے اس سوال کا جواب فوری طور دینا مشکل ہے قومی ا ور صوبائی اسمبلی کی سندھ کے شہری علاقے سے 75 نشستیں خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخاب یا ایم کیو ایم کا بائیکاٹ دونوں صورت میں حکومت کے لئے مشکلات اور بحران پیدا کر سکتا ہے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے مولانا فضل الرحمنٰ کی مصالحت کار کی حیثیت قبول کر لی ہے اور فاروق ستار کو غلط فہمیاں دور کرنے کے لئے کور کمانڈر کراچی سے ملاقات کی ہدایت بھی کر دی ہے الطاف حسین کے طرز عمل سے ایم کیو ایم اور ایسٹیبلشمنٹ کے درمیاں غلط فہمیاں دور ہونے کے امکانات روشن ہوں گئے ہیں جیسا کہ مولانا فضل الرحمنٰ نے بھی کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے حکومت نہیں’’ کسی اور ‘‘کے خلاف استعفے دئیے ہیں اب اگر’’ کسی اور‘‘ نے ایم کیو ایم کو ’’معاف‘‘ کر دیا تو اس کے سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ایم کیو ایم کو دیوار سے لگا کر اس کی نشستیں ’’سیاسی چیلوں ‘‘ میں تقسیم کرنے سے صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے ایم کیو ایم کراچی میں امن وامان قائم کرنے میں رینجرز سے تعاون کرکے تمام غلط فہمیوں کو دور کر سکتی ہے توقع ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی مولانا فضل الرحمنٰ کی کوششوں کا مثبت جواب ملے گا اب دیکھنا یہ ہے مولانا فضل الرحمنٰ الطاف حسین اور ایسٹبلشمنٹ کے درمان ’’پل ‘‘ کا کردار ادا کرنے میں کس حد کامیاب ہوتے اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ہی ملے گا

epaper

ای پیپر-دی نیشن