10ویں نمبر پر کھیلوں تو نتائج کی توقعات بھی ایسی ہی رکھیں : سہیل تنویر
اسلام آباد (نمائندہ سپورٹس) الیکٹرانک میڈیا میں کسی کے بارے میں بھی سوچے سمجھے اور جانے بغیر کچھ بھی بول دینا بہت آسان ہے۔ ان خیالات کا اظہار آل راﺅنڈر سہیل تنویر نے وقت نیوز کے پروگرام گیم بیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سب مجھے تنقید کا ہدف بناتے ہیں کیونکہ میں ایک آسان ہدف ہوں میرا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ آٹھ سال کے کیریئر میں ایک مرتبہ بھی فٹنس مسائل کی وجہ سے گراﺅنڈ سے باہر نہیں آیا۔ ہر میچ مکمل دلجمعی کے ساتھ کھیلتا ہوں دسویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے آتا ہوں تو پھر توقعات بھی اس نمبر کے حساب سے رکھی جائیں۔ چند ایک میچز میں خراب کارکردگی کا ذمہ دار بھی خود ہوں لیکن جب ماہرین بات کرتے ہیں کہ وہ تو صرف میری ناکامیوں کا ذکر تے ہیں حالانکہ میں صرف برا ہی نہیں کھیلا، اچھا بھی کھیلا ہوں۔ق ٹیم کو میچز جتوائے بھی ہیں جو میری کامیابیاں ہیں ان کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ تجزیہ کاروںکا فرض ہے کہ وہ بولنے اور لکھنے سے پہلے معاملات کی مکمل تحقیق کرے۔ اعداد و شمار دیکھ کر ایمانداری کے ساتھ کسی بھی ایجنڈا کے بغیر تجزیہ کریں۔ منفی تنقید سے کھلاڑی اور ان فیملی پر برا اثر پڑتا ہے۔ وقار یونس ایک محنتی کوچ ہیں وہ سخت محنت پر یقین رکھتے ہیں اگر کوئی انہیں ٹریننگ سٹیشنز کرواتے دیکھ لے تو ذرا سی بھی ایمانداری کا مظاہرہ کرے تو وقار یونس کے بارے میں کبھی منفی رائے نہیں دے گا۔سب سے زیادہ غیر ملکی معاہدے ملک کی خاطر چھوڑے لیکن اس کا کوئی دکھ نہیں کیونکہ میری پہچان پاکستان ہے۔ آل راﺅنڈر بنایا جاتا ہے ناقدین میری ذات پر تنقید کرنے سے پہلے اعداد و شمار کا جائزہ لے لیا کریں۔ سری لنکا کے خلاف پہلے میچ میں ’مین آف دی میچ‘ ہوا تو کسی نے اچھا نہیں کہا۔ دوسرے میچ میں خراب باﺅلنگ پر خوب تنقید کی گئی۔ ناقدیں جب برا کہتے ہیں تو ان میں اچھا کہنے کی بھی اخلاقی جرات ہونی چاہئے۔ سہیل تنویر نے کہا کہ سری لنکا کے خلاف تینوں فارمیٹ میں ٹیم کی کامیابی کا کریڈٹ کھلاڑیوں اور کوچنگ سٹاف کو جاتا ہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں مقدار کی بجائے معیار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہماری ڈومیسٹک کرکٹ میں کچھ اچھا نہیں ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم نے ماضی میں تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہےں پاکستان کے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے یہ سب ڈومیسٹک کرکٹ کی پیداوار ہےں تاہم پھر بھی بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ موجودہ ٹیم میں نئے لڑکوں کی آمد سے فیلڈنگ کا معیار بھی بہتر ہوا ہے۔