• news

منگل‘ 2؍ ذیقعد ‘ 1436ھ ‘ 18 ؍ اگست 2015ء

پیپلزپارٹی کا جھنڈا بلاول کیلئے بھاری ہو گا:۔ نجومی کی پیشنگوئی
مستقبل کی بات کرنے والے یہ نجومی کو لگتا ہے کہ عقل ہی نہیں آنکھوں سے بھی اندھے ہیں۔ ورنہ اگر سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کم از کم دیکھ کر ہی پیشنگوئی کرتے۔ ویسے بھی اب اس جھنڈے کے بھاری ہونے میں کس کو شک ہو سکتا ہے جس کو تھامنے والے یا جاں سے گزر گئے یا پارٹی چھوڑ گئے۔
دنیا دیکھ بھی رہی ہے اور کہہ بھی رہی ہے کہ اس وقت بلاول کی جذباتی تقاریر کے باوجود سوائے صوبہ سندھ کے پیپلز پارٹی کا پرچم کب کا لپیٹا جا چکا ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں پنجاب کے چند دیہی علاقوں میں صرف اس لئے یہ پرچم لہراتا ہے کہ وہاں کے سادہ لوح نفع و نقصان سے بے پروا محنت کش اسے ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو کی پارٹی کا پرچم سمجھ کر لہراتے ہیں اور ’’وفاداری بشرط استواری‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ یہی جھنڈا ابھی تک سندھ کے عمر رسیدہ وزیراعلی نے کچھ اس طرح تھام رکھا ہے کہ اس جھنڈے کی جان چھوڑنے کا نام تک نہیں لے رہے۔ حالانکہ ان کی خالی جگہ پُر کرنیوالوں کی ایک لمبی قطار تو انکی جگہ خالی کرنے کی حسرت دل میں لئے کھڑی ہے۔ کئی چھوٹے دل والے تو اس قطار میں سے نکل کر کئی دوسری جماعتوں میں … ؎
خوش رہو تم تو میاں
ہم تو سفر کرتے ہیں
کہتے ہوئے شامل ہو چکے ہیں۔ یہی حالات رہے تو بلاول کو جھنڈا اٹھانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی یہ پرچم بلاول ہائوس پر ہی کافی ہو گا لہرانے کیلئے۔ رہی بات آصفہ زرداری کی کہ نجومیوں کے مطابق ان کو چیئرمین بنانے سے فائدہ ہو گا تو یہ بات نجومیوں سے بہت پہلے آصف زرداری کے دل میں مچلتی رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان نجومیوں کو بھی انہوں نے ہی اس پیشن گوئی کیلئے تیار کیا ہو۔
٭…٭…٭…٭
کولکتہ میں رشوت خور سرکاری ملازم کے فلیٹ سے 20 کروڑ روپے برآمد۔
بس اتنی سی رقم کی برآمدگی کو بھارتی پولیس نے اپنی بڑی کامیابی تصور کر لیا اور اس پر دھمالیں ڈال رہی ہے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اتنی رقم ملے گی۔
اب اس بے وقوف رشوت خور سرکاری ملازم کو کوسنے کو جی چاہتا ہے جس نے اتنی بڑی رقم اپنے فلیٹ میں رکھی وہ بھی بستر میں، تکیوں میں، صوفے کے کشنوں میں، الماری اور سوٹ کیسوں میں حتی کہ باورچی خانے کی درازوں سے لے کر غسل خانے تک میں۔ اگر بیرون ملک اکائونٹس کھولنے سے اتنا ہی ڈر لگتا تھا تو کیا اچھا ہوتا اگر وہ یہ رقم پرانے راجوں اور ساہوکاروں کی طرح زیر زمین دفن کرتا یا مٹکوں میں دبا کر رکھتا تو اسے آج یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا اور نہ ہی پولیس والوں کو گھنٹوں نوٹ گننے کی زحمت اٹھانا پڑتی۔
ہمارے ملک میں بھی ہزاروں نہیں لاکھوں رشوت خور لاکھوں کروڑوں بلکہ خیر سے اربوں روپے تک کرپشن کرتے ہیں۔ دھڑلے سے اربوں روپے کے بنگلے اور پلازے بناتے ہیں، زرعی زمین خریدتے ہیں اور پھر بھی جب رقم ختم نہیں ہوتی تو بیرون ممالک میں خریداری کرتے ہیں اور غیر ملکی بنکوں میں لمبی لمبی رقمیں جمع کراتے ہیں۔ ان میں سے تو کوئی بھی اپنے گھر میں اتنی رقم نہیں رکھتا کہ بوقت چھاپہ کسی کو گننی پڑے۔ نجانے کیوں یہ بھارتی حکومت اپنے سرکاری ملازمین کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتی۔ کاش وہ ہم سے یہ سبق سیکھے کہ ہماری کوئی حکومت اپنے معمولی سے لیکر اعلی سرکاری ملازم تک سے یہ دریافت نہیں کرتی کہ اتنی تنخواہ میں یہ اربوں کی جائیدادیں اندرون و بیرون ملک کیسے بنا لیں اور پھر یہ 20 کروڑ روپوں کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ہماری حکومت اتنی معمولی کرپشن کو تو شاید کرپشن ہی نہیں سمجھتی۔
٭…٭…٭…٭
کنگ پارٹی بنانے کی تیاریاں، مشرف کو سربراہ بنائے جانے کا امکان۔
حساب کے معمولی قاعدے کے مطابق صفر+صفر مساوی صفر ہی ہوتا ہے مگر اس صفر کو بھی ہمارے جوڑ توڑ کے ماہرین بادشاہ بنانے کے چکروں میں قوم کا نجانے کتنا وقت ضائع کر چکے ہیں اور مزید کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔
اب کنگ پارٹی بنانے کا تجربہ کرنے والے کیا پہلے بنائی جانے والی کنگ پارٹیوں کا انجام بھول چکے ہیں یا جان بوجھ کر عوام کے اعصاب کا امتحان لینے پہ تلے ہوئے ہیں۔
اگر عوامی زبان میں بات کریں تو ہم ایسی پارٹی کو لوٹا پارٹی کہتے ہیں۔ اور ایسی پارٹی کیلئے ہی…
بھان متی نے کنبہ جوڑا
کہیں کی مٹی کہیں کا روڑا
جیسی مثالیں زبان زدعام و خاص ہیں۔
ایسی جماعتیں سوائے خلفشار پھیلانے کے پہلے کون سا کمال دکھا گئی ہیں کہ اب یہ نئی لوٹا پارٹی دکھا سکے گی۔
چلے ہوئے کارتوسوں کی پوری پیٹی بھی کسی کام کی نہیں ہوتی تو اب یہ پرویز مشرف، شیخ رشید، ذوالفقار کھوسہ، پیرپگارا، سردار عتیق، سکندر حیات، ممتاز بھٹو، شجاعت حسین، پرویزالہی، لیاقت جتوئی، نبیل گبول اورذوالفقار مرزا جیسے تھکے ٹٹے سیاست دان جن کی ساری عمر اسی کوچے کی خاک بدن پر ملتے گزری ہے کون سا دنگل جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ انکی کارکردگی کا فیصلہ تو آنیوالا وقت کرے گا مگر اس کام کی بدولت چلیں کچھ بے روزگاروں کا روزگار لگ جائیگا اور کچھ ’’وھلے‘‘سیاست دان چائے کی پیالی میں طوفان کے مزے لیں گے اور قوم کو ایک خواہ مخواہ کے نئے ہیجان میں مبتلا کرکے بیان بازی کی مہارت دکھائیں گے۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن