سیاسی دھرنے کے سبب کتنی وکٹیں گریں؟
2014ء کی لندن سازش نے ایک جانب سیاسی دھرنوں کی ساکھ تباہ کر کے رکھ دی اور دوسری جانب پس ِ پردہ ایک ایسا گھنائونا کھیل رچایا جس کے سبب قومی سلامتی کے ادارے کے کئی لوگوں کے کورٹ مارشل ہو چکے ہیں چند آفیسرز ایسی سزا کے منتظر ہیں اورکچھ زیرِ انکوائری ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز اُن آفیسروں کے کیریئر تباہ ہو گئے ہیں۔ دو تین ہفتے پیشتر وقت نیوز چینل پر قومی سلامتی کے ایک اعلیٰ حاضر سروس ذمہ دار آفیسر نے کچھ انکشافات کئے۔ اسکے بعد ایک اور چینل پر ایک صاحب جو سابقہ برسوں میں نگران وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں انہوں نے مذکورہ ڈرامے سے پردہ اُٹھاتے ہوئے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا کہ ظاہری طور پر حدف میاں نواز شریف تھے لیکن اصل ٹارگٹ دوسرے شریف تھے۔ رب العالمین ہر شریف کہلانے والے کی عزت رکھے۔منصوبہ یہ تھا کہ میاں نواز شریف کو اتنا دبائو میں لایا جائے (Bring Him So Much Under Presser)کہ وہ اس تمام کارروائی کے پیچھے قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کا ہاتھ سمجھ کر اسکو ملازمت سے برخاست کر دیں اور پھر غلام گردش حضرات میاں نواز شریف کو گرفتار کر کے خود ملک کی بھاگ ڈور سنبھال لیں لیکن جس سے پروردگار نے جس قدر بھلائی اپنی مخلوقات کی فلاح اورتحفظ کا کام لینا ہے وہ ذات پاک خود ایسے اسباب پیدا کر دیتی ہے کہ اسکے بندے وہ کام کرجاتے ہیں۔مذکورہ دونوں ٹی وی چینل پر کئی گئی بحث کے جواب میں میاں نواز شریف نے ایک بیان جاری کیا کہ انکوائری پہلے سے ہو رہی ہے ، خواجہ آصف نے بیان جاری کیا کہ ایسی کوئی چیز نہیں اگر کوئی چیز سامنے آئی تو دیکھیں گے جب کہ اسحاق ڈار نے اس بارے میں بیان جاری کیا کہ انکوائری کی کوئی ضرورت نہیں۔
جب کہ حقائق میاں شہباز شریف کی نظر میں تھے اور انہوں نے بھی اصل صورتحال سے پہلوتہی کرتے ہوئے بہت محتاط بیان جاری کیا۔ البتہ عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری ، چوہدری برادران اور شیخ رشید کی جانب سے مذکورہ ٹی وی چینلز کے مباحث اور اوپر کی سطور میں بیان کردہ تینوں حکومتی اہلکاروں کے بیانات کے بارے میں تبصرہ کرنے سے مکمل گریز کیا گیاکیونکہ یہ سب اپنے سن 2014ء کے کردار پر شاید پچھتا رہے (Guilty Conscious) تھے ۔
بہر حال افسوس اس امر پہ ہے کہ عمران خان لوگوں کے ہاتھوں میں کیوں کھیل رہے ہیں ؟اگر انہوں نے قومی لیڈر کی حیثیت سے کوئی کردار ادا کرنا ہے تو اپنے سسٹم میں ایسے انٹیلی جنس سیل کا قیام عمل میں لائیں جو اُنکی ذاتی اور سیاسی زندگی کے ہمدرد ہونے کے علاوہ ملکی سلامتی اور ملکی سلامتی کے اداروں کا بھی بہی خواہ ہو۔
عمران خان کو خود یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اُنکے مشیران ِ خصوصی کِن کِن لوگوں سے خفیہ طور پر رابطوں میں ہیں۔ 2014ء کا سیاسی دھرنا کئی لوگوں کو ذلیل کر وا چکا ہے اور کتنے ابھی ذِلتوں کی زد میں آنیوالے ہیں۔ اس سے بھی خاص طور پر عمران خان کو آگاہ ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں ایک اِدارے کے واقف ِ حال ذکر کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ اُن کا رُخ سیاست کی طرف پھر گیا ہے ورنہ خدشہ تھا کہ وہ "امام مہدی"ہونے کا دعویٰ کر دینگے۔ ڈاکٹر موصوف کے بارے میں انہوں نے انکشاف کیا کہ انٹر نیٹ پر انکی ایسی ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے سبب مسلمانوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ سیاسی دھرنے سے ایک ماہ بعد کسی ڈیل کے نتیجے یا دل برداشتہ ہو کر اٹھ جانے اور واپس کینڈا چلنے جانے کے پس ِ پردہ کی سٹوری بھی ایسی سننے میں آئی جس کے بارے میں وہ پہلے خود تردیدی بیان جاری کر چکے ہیں۔اور تردیدایسے امور کے بارے میں کی جاتی ہے جو وقوع پذیر ہو چکے ہوتے ہیں۔اقوام ِ عالم میں آج کے دور میں خفیہ اداروں کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا آج دنیا کے ہر ملک میں بیسیوںخفیہ ادارے ہیں حتیٰ کہ ایسے ادارے بھی ہیں جو مذکورہ خفیہ اداروں کی نگرانی کرتے ہیں۔
ایران کے نیوکلیئر پاور بن جانے اور اسکے میزائل سسٹم کا ذکر کرتے ہوئے وہ امریکی صدر کے اُس بیان پر تبصرہ کرتے رہے جس میں صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ امریکہ مذکورہ معاہدہ نہ کرتا تو ایران اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کر دیتا۔
عمران خان ، اسفند یار ولی، ایم کیو ایم اور آصف علی زرداری کے ایک پڑوسی ملک کے ہاتھوں میں کھیلنے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے عمران خان نے بیان جاری کیا کہ ہم سعودی عرب پاکستانی افواج نہیں جانے دینگے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ہر کسی کے ہاتھوں میں بغیر سوچ و بچار کے کھیلنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔قومی لیڈروں والی بلوغیت اور بالغ نظری جانے کب اُن میں آئے؟ہر مسئلے پر فوراً اس کے آئندہ وقتوں میں پیش آنے والے اثرات کو سمجھے سوچے بغیر وہ میڈیا کیلئے بیان جاری کر دیتے ہیں۔ قومی سلامتی کے مسائل پر گفتگو سے گریز اور میڈیا والوں سے معذرت کرنا اُن کو آتا ہی نہیں۔ ہر روز اُن کا کوئی بیان اخبارات میں شائع ہوتے رہنے میں وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ۔علاوہ ازیں ہر معاملے میں حکومت کو حدف ِ تنقید بنانا عمران خان اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ یہ نہیں خیال کرتے کہ ملک کے ایک نہایت اہم صوبے میں انکی پارٹی کی حکومت چل رہی ہے اور اُس صوبائی حکومت کے وزراء حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ پر بھی اس صوبے کے لوگ کس طرح اُنگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ پنجابی زبان کی ضرب المثل مشہور ہے کہ "دیگ میں پکائے گئے کھانے سے ایک لقمہ لینے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کھانے میں مرچ مصالحے اور کھانے کا ذائقہ کیا ہے"۔ جب کسی حکومت کا حاضر سروس وزیر کرپشن اور غیر قانونی امور میں ملوث پائے جانے کے سلسلے میں گرفتار کر لیا جائے تو اُس واقعہ سے مذکورہ حکومت کی تمام کارکردگی مشکوک ہو جاتی ہے بلکہ تمام حکومتی اہلکاروں کا کردار بھی ۔ کسی حکومت کے وزیر کا گرفتار کیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ عمران خان کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔کم بولیں لیکن بولنے سے پہلے ایک سو مرتبہ اس بیان بازی کے اثرات پر نظر ڈالیں،اور عملی کام کی جانب زیادہ توجہ دیں۔ اب تو سابق صدر مشرف نے بھی برملا عمران خان کو ناپختہ ذہن کا سیاست دان کہہ دیا ہے۔ حالانکہ موصوف نے جب میاں نواز شریف کی حکومت پر "دن خون مارا تھا"یعنی شب خون کی بجائے دن کی روشنی میں اُن کو گرفتار کرا کر حکومت پر قبضہ کیا تھا ۔
سائوتھ ایشیاء کی سیاست اور سیاسی زندگی دیگر براعظموں کی سیاست سے الگ تھلگ ہے۔ پاکستان میں اکثریت ایسے سیاست دانوں کی ہے جو کروڑوں کی لاگت کے ذریعے اسمبلی اور سینٹ کی ممبر شپ حاصل کرتے ہیں لیکن غیر ممالک میںعوام کے کام والے لوگ اکثریت سے اسمبلیوں کی سیٹیں جیتے ہیں۔
راقم مملکت ِ خداداد کے کسی سیاسی کارکن اور سیاسی رہنما کو حدف ِ تنقید نہیں بنانا چاہتا وہ الفاظ رقم کررہاہوں جو زبان زدِ عام ہیں۔
سکوت آموز طولِ داستانِ درد ہے، ورنہ
زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے