ادارے کی ساکھ کیلئے عہدے اور منصب جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے علی ظفر ایڈووکیٹ توہین عدالت کیس میں بار کے سینئر قانون دان لطیف آفریدی سے کہا ہے کہ وہ تمام معاملات کا جائزہ لے کر جمعہ کو بتائیں کہ عدالت اور علی ظفر کیس کس حد تک صحیح اور غلط ہیں۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ ادارے کے احترام میں پہلے بھی جج کا عہدہ چھوڑا اب بھی ادارے کی ساکھ کے لئے ہم عہدے اور منصب کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ وکلاء کیخلاف 7500 شکایات موجود ہیں اور انضباطی کارروائی کے ٹربیونلز تاحال غیرفعال ہیں۔ بینچ اور بار کے احترام پر آنچ آئے گی تو معاملہ نہیں چلے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ججز اندر بیٹھ جائیں اور عوام کی لٹنے والی کمائی پر سمجھوتہ کر لیں، کرپشن کو روکنا ہمارے فرائض میں شامل ہے جس کے لئے ہمیں اس قدر مراعات اور تنخواہیں دی جاتی ہیں ہم اپنے فرائض سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ جو اٹھتا ہے عوام کے اثاثوں کو مال غنیمت سمجھ کر فیصلہ شروع کر دیتا ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ سرکاری ادارے اس طرح سے بدعنوانی میں ملوث رہے اور عوام کی خون پسینے کی کمائی اس طرح لٹتی رہی تو پھر اس ملک کو انقلاب فرانس دیکھنا پڑے گا۔ اس ملک کا ہر انچ عوام کی ملکیت ہے حکومت اور ادارے محض اس کے نگہبان اور رکھوالے ہیں، وہ کسی طور پر بھی اس کے مالک نہیں، حکمران جب گرانے پر آتے ہیں تو غریبوں کی کچی آبادیاں تک گرا دیتے ہیں اور سی ڈی اے کی مہربانی اور آشیرباد سے فٹ پاتھوں، گرین بیلٹ تک ناجائز قبضے ہوچکے ہیں اور کسی کو کوئی روکنے والا نہیں ہے، جنگلات کی کٹائی سے چترال، گلگت اور ملک کے دیگر علاقوں میں سیلاب آتے ہیں اور سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں، پنجاب میں قبضہ مافیا، کے پی کے میں جنگلات مافیا ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میڈیا کو آزادی اظہار رائے حاصل ہے مگر کچھ پابندیاں بھی ہیں۔ علی ظفر ایڈووکیٹ کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بینچ اور بار دونوں کو ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ ہم بطور وکلاء قوانین کے پابند ہیں، اگر ہمارے پیشے کا احترام نہ رہا تو پھر کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔