• news

سندھ کابینہ میں مزید تبدیلیاں ۔۔۔۔ نتائج کب ملیں گے؟

الطاف مجاہد
سندھ میں حکمران پیپلزپارٹی نے کابینہ میں اضافہ اور ردوبدل کیا ہے توقع کی جا رہی تھی کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں بہتری آئے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا ابھی تک محکموں اور قلمدانوں کا معاملہ بھی طے نہیں پاسکا ہے وزارت تعلیم کا قلمدان نثار کھوڑ سے لے کر میر ہزار خان بجارانی کو دیا گیا تھالیکن وہ دلچسپی نہیںلے رہے تھے ایک تاثر یہ بھی ہے کہ نثار کھوڑو کی طرح وہ بھی محکمہ تعلیم کے سیکرٹری فضل اللہ پیچوہو سے خوش نہیں ہیں جو آصف زرداری کے بہنوئی اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کے شوہر ہیں اسی طرح وزارت اطلاعات شرجیل انعام میمن سے لے کر نثار کھوڑو کو دی گئی تھی ابتداً آرکائیوز کا محکمہ اول الذکر کے پاس ہی رہا بعد میں یہ قلم دان ثانی الذکر کو تفویض ہوا تو اس پر رسہ کشی شروع ہو گئی اور گزشتہ روز یہ محکمہ پھر شرجیل انعام میمن کو دے دیا گیا ہے حالانکہ ابتدا ہی سے اطلاعات اور آرکائیوز کے محکمے ایک ہی وزیرکے پاس رہے ہیں سندھ کے وزیر کچی آبادجاویدناگوری جو لیاری سے ایم پی اے ہیں اور کراچی پی پی کے ڈویژنل سیکرٹری تھے ان سے پہلے مرحلے میں پارٹی عہدہ اور دوسرے مرحلے میں وزارت واپس لے لی گئی، لعل بخش بھٹو کے صاحبزادے ندیم بھٹو کو کراچی کی سیکرٹری شپ ملی جب کہ وزارت کا منصب نواب شاہ کے طارق مسعود آرائیں کو سونپا گیا اطلاعات یہ تھیں کہ سابق وزیر ٹرانسپورٹ اور کیماڑی کراچی سے ایم پی اے اختر جدون کو کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے لیکن ان کے ڈیرے سے مسلح محافظوں کی گرفتاری کی خبریں آئیں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اسلحہ قانونی تھا لیکن وزارت ان کے قریب سے ہو کر گزر گئی بعض ذ رائع دعویٰ کرتے ہیں کہ فریال تالپور کی مداخلت پر طارق مسعود آرائیں کو وزارت ملی ہے اب اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سندھ کابینہ میں مزید ردوبدل متوقع ہے کچھ نئے چہروں کی شمولیت اور بعض قلم دانوں میں تبدیلیاں بھی کی جائیں گی اطلاعات یہ بھی ہیں کہ میر ہزار خان بجارانی کو آبپاشی کا قلم دان سونپا جا رہا ہے جو فی الحال نثار کھوڑو کے پاس ہے اورتعلیم کا محکمہ بھی جو ان سے لیکر نثار کھوڑو کو دے دیا گیا ہے آج کل وہ وزیر بے محکمہ ہے قبل ازیں ہزار بجارانی ورکس اینڈ سروسز کے وزیر تھے، جو ان دنوں شرجیل میمن سونپا گیا ہے طارق مسعود آرائیں کچی آبادی کا محکمہ ملا ہے جاوید ناگوری کے استعفے کے بعد سندھ کابینہ میں کراچی کی نمائندگی ختم ہوکر رہ گئی ہے ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ کے کوٹے پر کراچی سے کئی وزیر تھے لیکن سندھ حکومت سے متحدہ کی علیحدگی کے بعد اب مشیر، معاونین خصوصی اور کنسلٹنٹس تو کراچی سے یقیناً ہیں لیکن وزیر کوئی نہیں البتہ پی پی نے ایک بار پھر متحدہ سے سلسلہ جنبانی شروع کیا ہے اگر مولانا فضل الرحمن کا مشن کامیاب ہو جاتا ہے تو پی پی کی کوشش ہو گی کہ متحدہ ایک بار پھر حکومت کا حصہ بن جائے لیکن جب تک یہ بیل منڈھے نہیں چڑھتی سندھ کابینہ میں کراچی کی نمائندگی کا سوال اپنی جگہ موجود رہے گا سندھ میں سرکاری افسران بشمول ڈپٹی کمشنروں کے تبادلوں کے جو احکامات جاری ہوئے تھے ان میں ڈی سی غربی کراچی شازیہ جعفر اور سیکرٹری سروسز احمد بخش ناریجو کے تبادلے کے احکامات واپس لئے جا چکے ہیں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ پر کراچی کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے جس کی وہ تردید کرتے ہیں کراچی اور سندھ کی صورتحال پر نگاہ رکھنے والے تجویز کرتے ہیں کہ جس طرح بلوچستان کیلئے کئی پیکج مشتہر کئے گئے ہیں اسی طرح کراچی کیلئے بھی ملازمتوں، صحت، صفائی، فراہمی آب اور توانائی بحران کے خاتمے کے پیکج اعلان کئے جائیں تاکہ حکومت کے بارے میں نرم گوشہ سامنے آ سکے حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہو یا پی پی کی سیاسی جماعتوں میں اتحاد، مفاہمت، یکجہتی کے معاہدے ہوتے ہیں عوام کی سطح پر کوئی اعلان ہوتا ہے نہ فائدہ پہنچتا ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو ایجنڈے میں شریک کرتی ہیں عوام تک ریلیف کبھی کبھی پہنچتا ہے کراچی کلفٹن میں قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کے دھرنے میں بھی حکومت اور متحدہ پر کڑی تنقید کی گئی جبکہ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے نواب شاہ میں پریس کانفرنس کے دوران دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جنرل راحیل شریف اور میاں نواز شریف کے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا انہوں نے پی پی اور متحدہ کو ایک ہی سکے دو رخوں سے تشبیہ دی اور کہا کہ کراچی میں 70 فیصد ٹارگٹ کلنگ سیاسی ہے، انہوں نے تسلیم کیا کہ 91ءمیں سندھ ترقی پسند پارٹی تشکیل دے کر ہم نے سندھو دیش کی تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ہم قوم پرست ہیں لیکن نفرت کی سیاست نہیں کرتے بلکہ سندھیوں کے اختیار کی بحالی چاہتے ہیں اس بار 14اگست کا جشن آزادی سندھ میں تزک واحتشام سے منایا گیا اور گزشتہ برسوں کے برعکس ضلع نوشہرو فیروز سمیت متعدد اضلاع جہاں ہر سال قومی پرچم کی بے حرمتی اور ریلیاں نکالنے والوں پر حملے ہوتے تھے اس مرتبہ ایسا کچھ نہیں ہوا پارلیمانی سیاست کے مخالف یوم آزادی پر ہر برس یوم غلامی یا یوم سیاہ مناتے تھے لیکن اس بار خاموشی رہی البتہ لاڑکانہ میں قومی پرچم اور بیجز فروخت کرنے والے اسٹال پر بم حملے نے ایک کمسن بچی کی جان لے لی حکومت نے تحقیقات کا اعلان کیا ہے لیکن شہید بچی کے اہل خانہ کی امداد اور بحالی ضروری ہے ساتھ ہی جشن آزادی کو سبوتاژ کرنے والوں کی سرکوبی بھی، سندھ میں حکمران جماعت کو کابینہ میں ردوبدول اور قلمدانوں کی تفویض سمیت بہت سے معاملات اور مسائل درپیش ہیں لیکن کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کو دیہی سندھ تک توسیع دے کر بدامنی کا قلع قمع کیا جائے کہ یہ مطالبہ اب ہر سمت سے کیا جا رہا ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن