نیل کے ساحل سے لے کر تا بخا ک کا شغر
شاعر مشرق علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہیںکیو نکہ انکی شاعری سے پوری دنیا آج بھی استفادہ کررہی ہے۔ علامہ دراصل انسانوں کو جہد مسلسل اور جدوجہد کادرس دیتے ہیں۔1905ء سے1908ء کا عرصہ آپ نے ملک سے باہر گزار ااور یورپ، افر یقہ اور مشرق وسطی کے دوروں نے آپ کو متاثر کیا اور اس دور کے بعد کی نظموں میں اقبال نے مسلمانوں کو رنگ ونسل کی تفر یق کو مٹا کر ملت میں گم ہو جانے کا سبق دیا۔
گزشتہ دنوں چین کے صوبے شنجیانگ کے شہر کا شغر جا کر شدت سے یہ احسا س ہوا کہ علامہ اقبال کا ملت کا پیغام چین پراثر اندازہوچکا ہے اور بانگ درا کا یہ شعر: نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغراس امر کی ترجمانی کر تا ہے کہ چینی حکومت نے دنیا کو آپس میںمیل جول سے رہے اور فاصلے متانے کی خاطر جد ید شاہراہ ریشم کا جو تصور پیش کیا ہے۔ اسے عملی جا مہ پہنانے کی خاطر وسطی اشیاء یورپ، افر یقہ، مغربی اور شمالی ایشیاء تمام کو آپس ملانے کی خاطر جو ہری بحری اور فضائی راستے تعمیر و تشکیل دیئے جارہے ہیں۔ ان کا منبع کا شغر ہے۔
کاشغر کی تاریخ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ کبھی یہ تر کستان کا حصہ رہا تو کبھی فارس کا کبھی چنگیز خان نے اسے تحت و تاراج کیا تو کبھی تیمور لنگ نے اس پر حکومت کی۔ قدیم شاہراہ ریشم کا بھی یہ اہم تجارتی مرکز رہا۔ عالم اسلام کے عرب تاجر بھی یہاں سے گزرتے رہے۔ 1949ء میں کاشغر چین کی تحویل میں آگیا۔ چونکہ کا شغر صحرائوں کے درمیان ایک نخلستان ہے اسی وجہ سے قدیم شاہراہ ریشم میں اسکی بڑی اہمیت تھی۔ اسلام نے کا شغر پہ انمٹ نقوش چھوڑے اور اب اس شہر کی اکثریت آبادی مسلمان ہے۔ چین کی آزادی کے بعد مشرقی چین جہاں بند رگا ہیں اور صنعتی مراکز قائم ہیں نے وسیع ترقی کی۔ مغربی خطہ بشمول شنجیانگ کے صوبے اوراسکے صدر مقام اڑ مچی اور کا شغر بھی مشرقی خطوں کے مقابلے میںپستی کا شکار رہے لیکن جب سے چینی حکومت نے جد ید شاہراہ ریشم کے منصوبے کو عملی جا مہ پہنانا شروع کیا شنجیانگ کی قسمت پلٹ گئی اور کا شغر میں گو یا کسی نے تازہ روح پھونک دی ہو۔ قدیم شہر کے کچھ حصے کو آثار قد یمہ کا حصہ اور سیاحوں کی دلچسپی کی خاطر اپنی اصلی حالت میں چھوڑ کر نیاشہر تعمیر کیا گیا ہے لیکن طرز تعمیر میں اس امرکاخاص خیال رکھا گیا ہے کہ شغر کا ا سلامی تشخص بر قرار ہے۔ مساجد، عید گاہ، نئی عمارتیں ، بازار ، ہسپتال ، سکول کالج اور تفر یح گا ہوں میں قدیم کا شغر کی جھلک با لخصوص قائم ہے۔ علاوہ ازیں تجارتی ، سیا حی، تعلیمی اور ،معاشی مراکز قائم کرنے کی خاطر کا شغر کا ایک نیا تجارتی شہر قائم کیا گیا ہے جہاں بلند و بالا ٹوئن ٹاور کھڑے کئے گئے ہیں۔ جو ملیشیا کے پیٹر وناس ٹاور سے بھی زیادہ اونچے ہونگے لیکن طرزتعمیر اس طرح تشکیل دی گئی ہے کہ آسمان سے باتیں کرتے ان ٹاورز کی چوٹی کی شکل محرابوں کی ہے۔ چینی حکومت کی د ور اند یشی ہے کہ اس نے مشرقی صوبوں اور مشرق کے جد ید شہروں کے سپرد یہ ذمہ داری کی ہے وہ مغربی صوبوں کی پسماندگی دور کرنے اور نہیں اپنے ہم پلہ لانے کی خاطر تر قیاتی منصوبوں کی کفا لت کریں لہذا کا شغر میں بھی شین زین صو بے کی مدد سے مختلف تر قیاتی منصو بے نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر صوبہ اپنے چیمبر آف کامرس کی ایک جد ید عمارت کھڑا کر رہا ہے جہاں انکے دفاتر کے علاوہ تجارتی مراکز بھی ہونگے۔ صنعتی علاقوں میں چین کی بڑی صنعتوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے مراکز یہاں قائم کریں جس کیلئے انہیں کم نر خ پہ زمین، بجلی،پانی اور گیس بھی فراہم کی گئی ہے۔ غیر ملکی تاجروں اور صنعت کاروں،تاجروں اور سرمایہ کاروں کیلئے خاص ر عایت ہے۔جدید شاہراہ ریشم کے ذریعہ ریل، سڑکوں، فضائی اور بحری راستوں کا ایک وسیع جال بچھا یا جا رہا ہے جسکے ذریعہ تجارت اور سیاحت کے علاوہ خطے کے عوام کوایک دوسرے کے قر یب لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایسا مواصلاتی نظام قائم ہو رہا ہے جو ملکوں اور لوگوں کے درمیان فاصلوںکو مٹا دے گا۔ یہی علامہ اقبال کا خواب اور تصور تھا اور یہی چینی حکومت کا نصب العین ہے۔کاشغر کو وسطی ایشیاء اور یورپ سے ملانے کی خاطر شاہرا ہیں اور ٹر ینوں کی آمد و درفت کا سلسلہ شروع ہو رہاہے۔بحری مواصلاتی ذریعہ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کے راستے پاکستان کی جدید بندرگاہ گوادر کے ذریعہ ہے جہاں دینا بھر کے سمندری جہاز لنگر انداز ہونگے۔ فضائی مستقر کا شغر ہے جہاں سے فی الوقت پاکستان کی نجی فضائی کمپنی ریان ائر ہفتے میں اسلام آباد سے ایک ہی پرواز سر انجام دے رہی ہے۔ اغلب ہے کہ کا شغر کو بشکیک دو شا بنے دبئی جدہ اور دوسرے بین الاقوامی مراکز سے فضائی رابطوں سے جوڑنے کی خاطر ریان ائر کو ہی ذمہ داری دی جائے۔ اگر ایسا ہو تو یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہوگی۔کاشغر میں جس سر عت سے تعمیراتی پر وجیکٹ زیر تکمیل ہیں اور سڑکیں ،بلند و بالا عمارتیں ، صنعتیں، بجلی، گیس اور انٹر نیٹ کی لائنیں بچھائی جارہی ہیں اس سے چینی حکومت کے عزم و استقلال کا انداز ہو تا ہے۔ وسطی ایشیاء بہت بڑی تجارتی منڈی ہے اور وہاں کے عوام اور تاجروں کوجدید شاہراہ ریشم کی تکمیل کا شدت سے انتظار ہے۔ وسطی ایشیاء قدرتی گیس کا اہم ذخیرہ ہے اور وہ چین ، افغا نستان ، بھارت اور پاکستان کو اس قدرتی دولت سے فیضیاب کر نا چاہتا ہے۔ ہم اگر علامہ اقبال کے اس خواب کو بھی آگے لے کر چلیں تو سب کابھلا ہے۔علامہ اقبال اور چینی رہنما وں کی ملت اور یکجہتی کے خواب کی تعبیر کا شغر میں پا ئی جا تی ہے۔