• news
  • image

قصور کا دلخراش واقعہ اور معاشرے کی ذمہ داریاں

قصور میں رونما ہونیوالے دلخراش واقعہ نے نہ صرف ہر دردِ دل رکھنے والے انسان کو تکلیف پہنچائی ہے بلکہ بحیثیت قوم ہمارا سر بھی شرم سے جُھک گیا ہے۔ یہ واقعہ دُنیا بھر میں زیرِ بحث ہے اور ہر کوئی ہمیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے جو کہ حق بجانب بھی ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ ہونے کیوجہ سے یہ بات ہمارے لئے اور بھی باعثِ ندامت ہے کیونکہ یہ ہماری تعلیمات کے سرا سر منافی ہے۔ بچوں اور عورتوں سے زیادتی کے واقعات تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر اس طرح اجتماعی طور پر ایسا کرنا اور پھر اُسکی وڈیوز بنا کر تشہیر کرنا انسانیت کی تذلیل کے زمرے میں آتا ہے جسکی کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔ اس طرح کی ذہنی سوچ تو ہر وقت موجود رہتی ہے مگر اس سوچ کا اس طریقے سے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کرنا ایک ناقابلِ معافی جرم تو ہے ہی لیکن اسکے ساتھ ساتھ ایک انتہائی خطرناک معاشرتی رجحان کی بھی عکاسی کرتا ہے جو کہ بحیثیت ایک معاشرہ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس واقعہ نے ہمارے معاشرتی اور انتظامی نظام پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑے ہیں۔ پولیس کے محکمے پر عوام کا اعتماد نہ ہونے کیوجہ اُسکی اپنی ناقص کارکردگی اور پیشہ وارانہ نااہلی ہے۔ اگر تھانے کی سطح پر متعین لوگ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری،غیر جانبداری اور خلوصِ نیت سے پیشہ وارانہ طور پر ادا کریں تواسطرح کے واقعات کو آغاز میں ہی روکا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کیمطابق یہ مکروہ اور گھنائونا کھیل گذشتہ کئی سالوں سے کھیلا جا رہا تھا مگر پولیس اور خفیہ ادارے اس سے ناواقف تھے جو کہ ممکن نہیں اور پھر جب یہ واقعات منظرِ عام پر آنے لگے اُسوقت بھی اسے سنجیدہ نہیں لیا گیا یہاں تک کہ نوبت عوامی احتجاج تک آ پہنچی۔آخر کار ہماری انتظامیہ اور ذمہ داران احتجاج اور توڑ پھوڑ کے بعد ہی کیوں حرکت میں آتے ہیں۔ ضلعی سطح کے پولیس آفیسرز کا کردا ر بھی کسی صورت قابل ستائش نہیں کیونکہ وہ بھی حقائق کو چھُپانے اور اپنے نالائق ماتحتوں کو تحفظ دینے میں لگے رہے۔ ہمارے ہاں ایک عام روراج بن چُکا ہے کہ اپنی نااہلی اور بددیانتی کو چھپانے کیلئے حکومت اور سیاستدانوں کو موردِ الزام ٹہرایا دیا جائے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی کسی کو غلط کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ خود ایسا نہ کرنا چاہتا ہو۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب سب کو ہوش آتی ہے مگر اسکا پھر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی SHO یا اعلیٰ پولیس و انتظامی آفیسر غلط کام نہ کرنا چاہے تو اُسے کوئی مجبور نہیں کر سکتا اور ایسی بہت سی مثالیں آئے روز ملتی بھی رہتی ہیں جہاں فرض شناس آفیسر و عہدیدار نے دبائو اور لالچ میں آنے سے انکار کیا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوا اُسکا تبادلہ کر دیا گیا مگر جو عزت اُس نے کمائی اُسکی کوئی قیمت نہیں۔ آج کے دور میں میڈیا نے ایک مرکزی کردار حاصل کر لیا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں میڈیا کا منفی استعمال بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعہ کو منظر عام پر لانے میں بھی میڈیا کا بُنیادی کردار تھا مگر بعد ازاں پسند ناپسند اور مخالفت برائے مخالفت کی بُنیاد پر ایسی باتیں بھی کی گئیں جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس واقعہ کے بعد مقامی عوامی نمائندوں بالخصوص اس علاقے سے ایم۔ پی۔اے ملک احمد سعید کی کردار کشی کی گئی اور اُنہیں بغیر ثبوت کے مجرموں کی پشت پناہی کا موردِ الزام ٹہرادیا گیا۔ ملک احمد سعید ایک تعلیم یافتہ اور ہر دلعزیز سیاسی شخصیت ہیں ۔ سوشل میڈیا پر اُنکی کردار کشی اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت یا دلیل کے یقینا ایک قابلِ مذمت فعل ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور منفی رجحان اسطرح کے واقعات سے سیاسی فائدہ اُٹھانے کا ہے۔ متاثرہ فریق سے عملاً ہمدردی کی بجائے ظاہراً واویلا کرنا بھی ہمارا وطیرہ بن چُکا ہے۔ اس سے آپ اشتعال تو دلا سکتے ہیں اور ہمدردیاں بھی حاصل کر سکتے ہیں مگر حقیقت میں انصاف کی فراہمی میں اس سے کوئی خاص مدد نہیں مل سکتی۔ ہر کوئی اپنے نمبر بنانے کیلئے متاثرہ علاقے اور فریق کے پاس جا رہا ہے مقصد عمومی طور پر سیاسی شعبدہ بازی ہی لگتا ہے۔ اسکے برعکس اگر یکجا ہو کر اس طرح کے واقعات کی مذمت کیجاتی اور سیاسی بیان بازی سے گریز کیا جائے تو نہ صرف اصل محرکات تک پہنچا جا سکتا ہے بلکہ انصاف کی جلد فراہمی کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ آئی جی پولیس اور دوسرے اعلیٰ انتظامی آفیسرز سے مشتعل عوام کا توہین آمیز رسلوک بھی اسی اشتعال انگیزی اور بد اعتمادی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بالآخر انصاف تو اسی نظام کے اندر رہ کر ہی حاصل کرنا ہے لہذا جہاں ایک طرف پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی کو ضرور آشنا کریں مگر ساتھ ہی ساتھ تحقیقات میں بھی بھرپور معاونت فراہم کیجائے تا کہ جلد ازجلد انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ اس واقعہ میں مجموعی طور پر معاشرے کا کردار بھی بہت حوصلہ افزا نہیں رہا۔ اگر علاقائی اور معاشرتی تنظیمیں فعال اور سرگرم ہوں تو نہ صرف اسطرح کے رجحانات کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ اگر کوئی واقعہ رونما بھی ہو جائے تو اُسے ابتدائی سطح پر ہی روکا جا سکتا ہے۔ اس تمام تناظر میں آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم اپنی ذاتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا احساس کریں تا کہ اس طرح کے دلخراش اور باعث شرم واقعات کو روکا جا سکے۔ ہر واقعہ میں بڑی بڑی سیاسی و حکومتی شخصیات کو شامل کرنے سے بھی معاملات حل ہونے کی بجائے مزید اُلجھ جاتے ہیں جیسا کہ ہم نے گذشتہ برس ہونیوالے ماڈل ٹائون سانحے کے بعد دیکھا ۔ یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ حکومتوں کو بھی اپنے رویوں اور طرزِ حکمرانی پر نظرثانی کرنی چاہیے تا کہ اس طرح کے واقعات اس تواتر کے ساتھ نہ ہوں۔ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی جانفشانی اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا ہر کوئی معترف ہے مگر اُنکی مسلسل کوشش اور سخت ہدایات کے باوجود پولیس اور انتظامیہ کا مجموعی طرزِ عمل نہ صرف مایوس کُن ہے بلکہ عوامی عدم اعتماد کا مظہر بھی جو کہ نہ صرف ایک لمحہ فکریہ ہے بلکہ مزید سخت اقدامات کا متقاضی بھی۔ پولیس کلچر میں نمایاں تبدیلی تمام حکومتوں کیلئے ایک چیلنج ہے جسکے لئے ایک نئی اور یکسر مختلف سوچ کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ حقائق سے پردہ اُٹھانے کے ساتھ حل کیلئے بھی مثبت اور قابلِ عمل تجاویز دے تا کہ ہر کوئی اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ہم ایک عزت دار اور ترقی پسند معاشرے کے طور پر آگے بڑھیں اور پہچانے جائیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن