• news

ہر روز لوگ مر رہے ہیں‘ کوئی تفتیش‘ تحقیقات نہیں ہو رہی : چیف جسٹس

اسلام آباد (آئی این پی + نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو کم بجٹ فراہم کرنے پر اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا، ایف آئی اے سے ملازمین اور بجٹ سے متعلق تفصیلات طلب کرلی گئیں۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ بجٹ صرف پندرہ لاکھ ملے جس پر عدالت نے کم بجٹ فراہم کرنے سے متعلق برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایف آئی اے کو بند کر دیا جائے۔ حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں تو ادارے بند کر دیئے جائیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ وسائل نہ دے کر ایف آئی اے کو کرپٹ بنایا جارہا ہے۔ سالانہ صرف 15 لاکھ ملنے پر سپریم کورٹ حیران رہ گئی۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہر روز لوگ مر رہے ہیں، کوئی تفتیش، تحقیقات یا پراسیکیوشن نہیں ہورہی۔ مجھے بے حس کردیں تو میں بھی رات کو گہری نیند سو جایا کروں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایف آئی اے غیرفعال، نیکٹا غیرفعال، تفتیش کا بجٹ صرف 15لاکھ روپے سالانہ ہے۔ سیکرٹری داخلہ صاحب آپ کہتے ہیں حکومت دہشت گردی پر قابو پالے گی۔ سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ عدالت غلط سمجھ رہی ہے۔ ایف آئی اے کو ضرورت کے وقت سپلیمنٹری گرانٹ دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیکٹا نے بھی 500 ملازمین مانگے ہیں، اسے کہا جارہا ہے پیسے نہیں ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیسے ہو رہا ہے۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ چمن بارڈر پر ہزاروں لوگ گزرتے ہیں، امیگریشن کا ریکارڈ نہیں ہوتا، ایف آئی اے مردہ ادارہ ہے۔ قتل کیس میں ملزم کے بیرون ملک فرار ہو جانے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر حکومت قتل کے ملزموں کوگرفتار کرکے لانے میںبے بس نظر آتی ہے، ملزم ممالک میں چلے جاتے ہیں جن سے پاکستان کے ملزمان کے تبادلے کے معاہدے نہیں سنگین ملزموں کے نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالے جاتے؟ حکومت بے بس ہے تو عدالت اور قوم کو بتا دے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ جرائم کے خاتمہ کےلئے ملکی سطح پر معلومات کا ایک مرکزی نظام ہونا چاہیے تاکہ اگر ملک کے کسی بھی حصہ میں کوئی جرم کرے تو وہ بیرون ملک فرار کی کوشش کے دوران ہوائی اڈے یا بحری اڈے پر پکڑا جائے۔
ایف آئی اے/ چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن