حکومت انسانی سمگلنگ‘ منی لانڈرنگ روکتی نظر نہیں آ رہی : سپریم کورٹ‘ جائزے کیلئے دو کمشن قائم
اسلام آباد (نمائندہ نوائے+ آن لائن) سپریم کورٹ نے چمن اور طورخم بارڈر کے ذریعے انسانی سمگلنگ سمیت دیگر معاملات کا جائزہ لینے اور پاکستان چھوڑ کر جانے والے پاکستانیوں کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کرنے کے لئے دو الگ الگ کمشن مقرر کر دیئے ہیں جن کی سربراہی ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کریں گے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ بادی النظر حکومت کے عملی اقدامات اور بیانات میں گیپ نظر آتا ہے، عوام کی اکثریت حکومتی اقدامات سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے ملک سے باہر جانا چاہتی ہے اور کئی اس میں اپنی جانیں تک گنوا چکے ہیں۔ حکومت نے تو اقدامات کرنے نہیں، بنیادی انسانی حقوق‘ زندگی اور آزادی کا تحفظ کرنا اور اس بارے میں اقدامات کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے جبکہ نفاذ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے کا بجٹ ناکافی ہے جس میں اضافہ ناگزیر ہے ۔طورخم اور چمن بارڈر سے آنے جانے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں‘ سمگلنگ‘ انسانی سمگلنگ‘ منی لانڈرنگ تک آسانی سے کی جا رہی ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چمن بارڈر کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ ملک کی سالمیت اور بقاءکے لئے ہمیں اپنی سرحدوں سے انسانی سمگلنگ اور دیگر معاملات کو روکنا ہو گا‘ حکومت کو اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانیوں کو بیرون ملک جانے کا بہت شوق ہے اور وہ بھی غیر قانونی طور پر، شہری کئی کئی سالوں سے غائب ہیں۔ آپ کی ناک کے نیچے لوگ بیٹھے ہیں جو اس طرح کے معاملات میں ملوث ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل معاملات یہاں سے ہو رہے ہیں یہاں سے لوگوں کو ورغلا کر لے جایا جاتا ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ بارڈر کراس کرنا انتہائی آسان ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اب تو رینٹ اے کار بھی مل جاتی ہیں۔ ہم روزانہ سن رہے ہیں کہ لوگوں کو پاکستان افغانستان آنے جانے میں کوئی مشکل نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ صرف دو بارڈرز چمن اور طورخم کو چیک کرانا چاہتے ہیں۔ ہم صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ لاقانونیت کہاں تک بڑھ چکی اور کیوں بڑھی ہے؟ جسٹس دوست نے کہا کہ ملک کی سالمیت کے لئے ان بارڈرز کو محفوظ بنانا ضروری ہے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ اگر اسلام آباد ائرپورٹ پر لاکھوں ڈالرز پکڑے گئے ہیں تو کنٹینروں سے اربوں ڈالرز بھی باہر جا سکتے ہیں۔ جسٹس دوست نے کہاکہ 100سے زیادہ بار امیگریشن حکام اور جانے والوں کے درمیان ٹکراﺅ ہوا ہے۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق عدالت نے قرار دےاکہ،کہا جا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانا ہوگی سرحدوں پر مانیٹرنگ نظام کا نہ ہونا حیران کن ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہرکیس میں ادارے غیرفعال نظر آتے ہیں یہاں لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان ایک ڈوبتی کشتی ہے اس لئے یہاں سے بھاگو،جسٹس قاضی فائز عیسی نے ان سے کہا کہ جو لوگ جعلی ویزوں کے ذریعے لوگوں کو بیرون ملک بجھواتے ہیں وہ آپ کی ناک کے نیچے بیٹھ کرکام کررہے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ ہمیں بتایا جائے کہ سرحدپرخاصہ دارفورس کاسربراہ کیوں ماہانہ پولیٹیکل ایجنٹ کولاکھوں روپے اداکرتا ہے۔
سپریم کورٹ /انسانی سمگلنگ