ریلوے کے 184 افسروں کو 453 پلاٹس الاٹ کئے جانے کا انکشاف
اسلا م آباد (خبر نگار خصوصی) قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی عملدرآمد اور مانیٹرنگ کمیٹی نے کہا ہے کہ سر کاری افسران میں پلا ٹوں کی بندربانٹ کی جا رہی ہے سی ڈی اے افسران کو ئی سیکٹر بناتے وقت اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، پلاٹوںکے کاروبار میں ملوث افسران اور دیگر عملہ ارب پتی بن گیا ہے۔ رانا افضال حسین کی زیر صدارت ہوا اجلاس میں وزارت ریلوے اور مواصلات کی مالی سال 1996-97ء کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت ریلوے کے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے 184افسروں کو 453پلاٹس غیرقانونی طر یقہ سے الاٹ ہوئے ہیں، ان افسران نے ناجائز ذرائع اور منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ پلاٹ حاصل کئے ہیں، کمیٹی نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک افسر کو ایک پلاٹ دینا چاہئے تھا مگر یہاں ایک افسر کو کوئی پلاٹ دینا دوسروں کے ساتھ زیادتی ہے اور اب تک کئی افسروں نے ان پلاٹوں کی قیمتیں بھی ادا نہیں کیں، ان میں اکثر فوت ہو گئے ہیں۔ آڈٹ حکام کی جانب سے وزارت ریلوے میں بے قاعدگی کا انکشاف ہوا۔ اس پر رپورٹ ایک مہینے میں کمیٹی کے سامنے لانے کی ہدایات کی گئی۔ اس پر سیکرٹری ریلوے پروین آغا نے کمیٹی کو بتایا کہ ان میں 86 افسروں نے خود پیسے جمع کرا دیئے تھے ،5 افسروں سے نیب کے ذریعے وصول کئے گئے40 پر بعد میں جرمانہ عائد کر کے ان سے وصول کئے گئے اور 49افسران اس معاملے کو عدالت میں لے گئے ہیں، عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پروین آغا نے کمیٹی کو ریلوے کی زمینوں کے حوالے سے بتایا کہ ریلوے کے پاس جو زمین ہے وہ ابھی بھی متنازعہ ہے اور ہماری کوشش ہے کہ اس سال یہ معلوم کریں گے کہ ہماری کتنی زمین پورے پاکستان میں ہے ہم نے مارچ 2015 ء میں یہ منصوبہ شروع کیا تھا اور 18 ماہ میں اس کو مکمل کر دیا جائے گا اور پنجاب میں دو مہینوں کے بعد پتہ چل جائے گا کہ ریلوے کی کتنی زمینیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ تمام صوبے ریلوے کو اس کی زمینیں دیں مگر سوائے خیبرپی کے کسی صوبے نے اب تک ریلوے کو زمینیں حوالے نہیں کیں۔ سیکرٹری ریلوے کی جانب سے تقریباً دو کروڑ روپے کی لاہور ریلوے سٹیشن پر ٹائلزلگانے کا ریکارڈ موجود نہ ہونے کی بات کی گئی تو کمیٹی نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ کہیں ریکارڈ گم ہو جاتا ہے یا پھر جل جاتا ہے۔ اس پر ابھی تک ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں کیا گیا اور صرف رجسٹر کی گمشدگی کی ایف آئی آر سے کام نہیں چلے گا، ایک مہینے میں کمیٹی کو رپورٹ کی جائے۔ سیکرٹری ریلوے نے کمیٹی کو بتایا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ریلوے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے، حکومت نے دو سالوں میں جو ہدف دیا تھا، ریلوے نے اس سے زیادہ کمایا ہے، پچھلے سال ہمیں28 ارب کا ٹارگٹ دیا گیا تھا اور 31.9 ارب روپے کمائے ہیں، جن میں سے مسافروں سے 12 ارب اور کارگو سے 8ارب روپے اور باقی مارکیٹنگ زمینوں اور سکریپ کی فروخت سے آمدن ہوئی ہے۔ سیکرٹری نے کہا کہ ہمارے پاس سٹاف کی کمی ہے، ہماری ضرورت 96 ہزار ہے جبکہ اس وقت ہمارے پاس 78 ہزار ملازمین ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے بھرتیاں نہیں ہوئی، اب ہمیں 1400 بھرتیوں کی اجازت دی گئی ہے۔