ایاز صادق کی اسمبلی رکنیت ختم‘ این اے 122 اے پر دوبارہ الیکشن کا حکم
لاہور (اپنے نامہ نگار سے+ خصوصی رپورٹر+ لیڈی رپورٹر+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ+ نامہ نگاران+ نیشن رپورٹ) الیکشن ٹربیونل کے جج کاظم علی ملک نے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 اور پی پی 147 میں مبینہ دھاندلی کیس میں دائر درخواستوں پر دونوں حلقوں کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا ہے۔ این اے 122 سے سپیکر اسمبلی ایاز صادق جبکہ پی پی 147 سے مسلم لیگ (ن) کے محسن لطیف کامیاب ہوئے تھے۔ عمران نے ایاز صادق کی کامیابی کو ٹربیونل میں چیلنج کیا تھا۔ کیس کا فیصلہ 100صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلہ 9 گھنٹے تاخیر سے رات سوا 7 بجے سنایا گیا۔ الیکشن ٹریبونل میں این اے 122میں دھاندلی کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین نادرا نے بھی اپنا بیان قلمبند کرایا۔ چئیرمین نادرا کی طرف سے فرانزک رپورٹ اور سپلیمنٹری رپورٹ ٹربیونل میں جمع کرائی گئی۔ این اے 122 میں عام انتخابات کے دوران ایک لاکھ 84 ہزار 151 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق 73 ہزار 478 انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ہوئی۔ 570 ووٹرزحلقے میں رجسٹرڈ ہی نہیں تھے اور 255 ووٹوں پردوہرے شناختی کارڈ نمبر پائے گئے، اسکے علاوہ 370 ووٹوں پر شناختی کارڈ نمبر واضح نہیں تھا جبکہ ایک ہزار 715 کاؤنٹر فائلز پر فنگر پرنٹس بھی موجود نہیں۔ ایاز صادق 2013 ء میں 93 ہزار 3 سے 89 ووٹ لیکر رکن قومی اسمبلی منتخب عمران خان 84 ہزار 517 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ ٹربیونل نے فیصلے میں کہا ہے کہ ساڑھے 12ہزار ووٹ جعلی نکلے۔ این اے 122میں 377 بیلٹ پیپرز پر ووٹوں کے انگوٹھوں کے نشان نہیں تھے۔ 23957 ہزار بیلٹ پیپرز پر پولنگ عملے کی مہر تھی نہ دستخط۔ 24 پولنگ بیگوں پر سیل نہیں تھی۔ 6 پولنگ سٹیشنوں کے پولنگ بیگ سے ووٹر لسٹ نہیں ملی۔ 6 ہزار 123 بیلٹ پیپرز پر شناختی کارڈ نمبر غلط نکلے۔ 255 ووٹرز نے دو مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا۔ نادرا نے بدنیتی پر مبنی سپلیمنٹری رپورٹ تیار کی۔ عمران خان کے جو اخراجات آئے اس کی ادائیگی سپیکر کرنے کے پابند ہیں۔ الیکشن کمشن عملے نے فرائض قانون کے مطابق ادا نہیں کئے۔ الیکشن کمشن نے این اے 122 اور پی پی 147 کا انتخاب قانون کے مطابق نہیں کرایا۔ دھاندلی کیس کا فیصلہ سننے کیلئے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد علی الصبح ہی الیکشن کمشن کے آفس کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئی تھی۔ دونوں پارٹیوں کے پُرجوش کارکنوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ الیکشن کمشن کے گیٹ کے دائیں طرف تحریک انصاف جبکہ بائیں طرف مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے پوزیشن سنبھال رکھی تھی۔دونوں طرف سے شدید نعرے بازی کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکن’’ رو عمران رو‘‘ اور تحریک انصاف کے کارکن ’’ گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے نوجوانوں نے چہرے پر ’’رو عمران رو ‘‘ کے سٹکر چسپاں کر رکھے تھے۔ دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں ہاتھا پائی کے واقعات بھی ہوئے۔ جس کے بعد الیکشن ٹربیونل کی طرف سے نوٹس لیا گیا اور پولیس کی مزید نفری طلب کی گئی، واٹر کینن اور آنسو گیس لئے پولیس اہلکارالرٹ رہے۔ فیصلے کے موقع پر پولیس کی طرف سے ناقص انتظامات دیکھنے میں آئے۔ لوئر مال روڈ پر ایوان عدل کے دونوں اطراف پولیس اہلکاروں نے بیرئر لگا رکھے تھے اسکے باوجود دونوں پارٹیوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد میں الیکشن کمشن کے آفس کے باہر پہنچ گئے۔ ایک پولیس افسر ہجوم کنٹرول کرنے کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی عہدیدار خواتین کے ساتھ فوٹو بنواتی رہی۔ ٹربیونل میں کیس تقریباً دو سال سے زائد عرصہ زیرسماعت رہا۔ اس کیس کو ملکی سیاست میں اہمیت دی جا رہی تھی۔ سردار ایاز صادق تیسری مرتبہ اس حلقے میں 2013ء میں منتخب ہوئے تھے۔ الیکشن کمشن حکام کا کہنا ہے کہ سردار ایاز صادق کے حلقہ این اے 122 اور محسن لطیف کے حلقہ پی پی 147 کا تحریری فیصلہ ملتے ہی دونوں کو ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائیگا جس کے بعد 60 روز میں دوبارہ پولنگ کرائی جائیگی۔ نئے امیدوار حصہ لے سکیں گے۔ ٹربیونل کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ حکم امتناعی ملنے کی صورت میں ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم ہو جاتا ہے۔ چیئرمین سیکرٹریٹ گارڈن ٹائون میں فیصلے کے اعلان پر کارکنوں نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دئیے اور ’’گو نواز گو‘‘، مک ترا شو گو نواز گو، آئی آئی پی ٹی آئی اب راج کرے گی پی ٹی آئی اے کے نعرے لگائے۔ تحریک انصاف کی خواتین کارکن ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتی رہیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور جیت کے نغمے گاتی رہیں۔ نوائے وقت سے گفتگو میں پنجاب کی صدر سلونی بخاری اور سیکرٹری جنرل سعدیہ سہیل نے کہا کہ حق کی جیت ہوئی۔ شمسہ علی ایڈووکیٹ اور طلعت نقوی نے کہاکہ سچ سامنے آ گیا۔ مرکزی انجمن تاجران ضلع شیخوپورہ سیکرٹریٹ اور ضلعی دفتر پی ٹی آئی میں پارٹی رہنمائوں ،وکلاء ،تاجروں اور کارکنوں کی بہت بڑی تعداد جلوسوں کی شکل میں آگئی جہاں پر منوں مٹھائیاں تقسیم کرنے کے علاوہ کارکن ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے رہے، نوافل بھی ادا کئے گئے۔ محمد اسلم بلوچ، چودھری محمد سعید ورک ، عمران سعید ایڈووکیٹ، چودھری ابوبکر مشتاق ورک، چودھری محمد اقبال گوپے را، چودھری مشتاق احمد ورک آف کلہ، فیض الرسول گجر، چودھری انیس ریاست ورک ، رانا عبدالسمیع، چیئرمین حاجی غلام نبی ورک ، چودھری معراج خالد گجر،میاںمحمد شفیق اشرفی،چودھری ماجد منظور کاہلوں ، حبیب سلطان کھوکھر،چودھری کامران ذوالفقار ورک ایڈووکیٹ، رانا فہد قیوم،ثاقب غفور ورک، شیخ زین ندیم، انعام الحق گجر، حافظ محمد رضوان جانی،ملک شاہد سعید بلوچ و کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اوکاڑہ، بوریوالا، عارفوالا ، وہاڑی میں بھی پی ٹی آئی نے جشن منایا، کئی مقامات پر کارکنوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ آن لائن کے مطابق ٹربیونل نے فیصلے میں کہا ہے کہ دونوں حلقوںمیں انتخابی بے ضابطگیاں اور بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں جس سے انتخابی عمل متاثر اور مشکوک ہوا ہے۔ الیکشن رولز 68 کی رو سے کسی فرد کی طرف سے دھاندلی ثابت نہیں ہوئی، تاہم الیکشن رولز 70 کی رو سے انتخابی عمل کے دوران جو الیکشن مشینری استعمال کی گئی ہے اسکی وجہ سے انتخابی عمل میں بے قاعدگیاں و بے ضا بطگیاں پائی گئی ہیں جس کی وجہ سے الیکشن عمل متاثر ہوا ہے۔ عدالت نے 17 اگست کو دونوں حلقوں کے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔