شرائط پر مذاکرات ممکن نہیں: پاکستان کا دو ٹوک جواب‘ سرتاج عزیز کا دورہ بھارت منسوخ
اسلام آباد (سپیشل رپورٹ + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کی منسوخی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت پیشگی شرائط قبول نہیں۔ بھارتی شرط پر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ پاکستان نے بھارت کو جواب دیدیا ہے۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مشروط مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ 24 اگست کو پاکستان بھارت مذاکرات نہیں ہونگے۔ پیشگی شرائط پر بھارت سے قومی سلامتی مشیروں کے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیان کا بغور جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے تسلیم کیا ہے کہ تمام تصفیہ طلب امور پر مذاکرات ہونے چاہئیں۔ بھارت کے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات جھوٹے نکلے ہیں۔ ممکن ہے بھارت ایک دو واقعات گھڑ کر اور ایل او سی پر محاذ گرم کر کے مذاکرات کی بحالی کو غیرمعینہ مدت کیلئے ٹال دے۔ پاکستان بھارت مذاکرات کا مقصد تناؤ میں کمی اور اعتماد کی بحالی ہے۔ بھارتی شرائط پر مذاکرات ممکن نہیں۔ دہشت گردی 8 نکاتی مذاکرات کا حصہ رہا ہے۔ صرف دہشت گردی پر مذاکرات سے بلیم گیم میں اضافہ ہوگا۔ دریں اثنا مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا دورۂ بھارت منسوخ کر دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیان کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ پیشگی شرائط پر نئی دہلی کے مذاکرات میں شرکت نہیں کرینگے۔ اس سے قبل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہونے پر انہیں افسوس ہے۔ یہ دوسری بار ہے جب بھارت مذاکرات سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ تاہم ان کا پھر بھی کہنا تھا کہ وہ اب بھی پیشگی شرائط کے بغیر نئی دہلی جانے کیلئے تیار ہیں۔ عالمی برادری بھارتی روئیے کا نوٹس لے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے میڈیا کو بتایا کہ اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران مذاکرات کیلئے پیشگی شرط کی صورت میں مشیر خارجہ کے بھارت نہ جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان سے وفد بھارت کا دورہ نہیں کرے گا۔ مذاکرات میں ڈیڈلائن کا ذمہ دار بھارت ہے۔ دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ اعلیٰ سطح کا اجلاس بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بلایا گیا تھا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت کی پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کی پالیسی قبول نہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت تمام امور پر بات چیت کرنا چاہتا ہے، بھارت کا پاکستان پر اوفا معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام بے بنیاد ہے، بھارت کی حریت رہنمائوں سے ملاقات نہ کرنے کی شرط سمجھ سے بالاتر ہے۔ حریت رہنمائوں کی گرفتاریوں اور نظربندی پر تشویش ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام کرے۔ ملاقات کا مقصد باہمی کشیدگی کو کم کرنا تھا۔ اوفا معاہدے میں طے پایا تھا کہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے۔ اب شرائط عائد کر کے بھارت خود اوفا معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر قوم سیاسی اور عسکری قیادت متحد ہے، سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، بھارتی حکومت نہیں چاہتی کہ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی جائے۔ دہشت گردی میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت اقوام متحدہ کو دئیے ہیں۔ بھارت نہ جا سکا تو آئندہ ماہ امریکہ میں بھارتی وفد کو یہ ثبوت دوں گا۔ بھارت کہہ رہا ہے کہ کشمیر اہم مسئلہ نہیں، اگر کشمیر اہم مسئلہ نہیں تو مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کا کیا جواز ہے؟ اس موقع پر سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کہا کہ بھارت نے دو ماہ کے دور ان 100 سے زائد مرتبہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو چھ مرتبہ دفتر خارجہ طلب کر کے اس پر احتجاج کیا گیا۔ پچھلے بیس برسوں سے جب بھی پاکستان سے کوئی رہنما بھارت جاتا ہے تو حریت رہنمائوں سے اسکی ملاقات ہمیشہ ہوتی رہی ہے لیکن اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ بھارت کی حکومت حریت رہنمائوں سے ملاقات سے روک رہی ہے، یہ معمول کی ملاقات ہوتی ہے۔ سرتاج عزیز نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی پالیسی اس قسم کی ہے کہ وہ پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ ڈی جی رینجرز کی ملاقات 6 ستمبر کو شیڈول ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں، بھارت جتنی جلدی اس بات کو سمجھ جائے بہتر ہے۔ جب سے مودی حکومت آئی ہے وہ پاکستان کے ساتھ معاملات اپنی شرائط سے حل کرنا چاہئے جس میں سے مسئلہ کشمیر کو نکال دیا گیا ہے جو ممکن نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ مذاکرات کیلئے پاکستان کی تمام تیاریاں مکمل ہیں کوئی حیلہ بہانہ نہیں بنایا، بھارت نے اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے۔ مذاکرات کی منسوخی پر بھارت کو پوری دنیا کو جواب دینا ہو گا۔ پاکستان بھارت مذاکرات جب بھی ہوئے تمام مسائل زیر بحث آئینگے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے موقف پر قائم رہتا ہے جبکہ بھارت ہر گھنٹے بعد موقف بدلتا رہتا ہے۔ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بات چیت ہونی چاہئے۔
نئی دہلی (نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان بات چیت دہشت گردی کے مسئلے پر ہی مرکوز ہوگی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتے لیکن دہشت گردی پر مذاکرات کی ضرورت ہے۔ بامعنی بات چیت دہشت گردی کے ماحول میں ممکن نہیں۔ دہشت گردی پر بات چیت کے بعد ہی پاکستان کیساتھ دوسرے مسائل پر بحث ہوگی۔ بھارت مذاکرات سے بالکل بھاگنا نہیں چاہتا لیکن وہ ماحول بنانا چاہتا ہے جس میں بات چیت ہوسکے۔ اوفا میں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان طے پایا تھا کہ ایک بات چیت دہشت گردی کے موضوع، ایک سرحد پر کشیدگی کے حوالے سے کی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی ہر بات چیت کو مذاکرات نہیں کہا جاسکتا۔ اوفا میں نوازشریف اور نریندر مودی ملاقات مذاکرات کی بحالی نہیں ہوئی تھی۔ قومی سلامتی کے مشیروں کی بات چیت منسوخ کرنے کیلئے بھارتی حکومت کو مسلسل دباؤ کا سامنا رہا۔ جب بھی سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی ہم پر دباؤ ہوتا تھا کہ سلامتی امور کے مشیروں کے مذاکرات ختم کردو۔ لیکن ہم نے کہا کہ اس صوتحال کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی پر بات چیت کی جائے۔ سشما سوراج نے ملاقات میں کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ کشمیری حریت رہنماؤں سے متعلق بات کرتے ہوئے انکا یہ کہنا تھا کہ شملہ معاہدے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان جب مذاکرات ہوں گے تو صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوں گے، اس میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہوگا۔ کشمیریوں کو فریق نہ بنائیں۔ آپ بات چیت کا دائرہ دہشت گردی سے آگے مت بڑھائیے، آپ آنا چاہتے ہیں تو یہ دونوں باتیں آپ سے کہتے ہیں کہ تیسرے کو فریق مت شامل کیجئے، پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہونی چاہئے اور ہم آپکو خوش آمدید کہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مذاکرات سے پہلے کبھی بھارت نے حریت رہنماؤں کی پاکستانی رہنماؤں کی ملاقات نہیں ہونے دی۔ اب بھی نہیں ہونے دینگے۔ مذاکرات سے پہلے کا ملنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ انہیں سٹیک ہولڈر مانتے ہیں۔ عام طور پر ملنے اور مذاکرات سے پہلے ملنے میں بہت فرق ہے، اس بار تو پاکستان نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا ہے کہ حریت رہنما کشمیر کے نمائندے ہیں یہ تیسرا فریق بنانے والی بات ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہی نہیں ہو سکتی صرف شملہ معاہدہ اور اوفا اعلامیہ پر بھی بات ہوگی ۔ سرتاج عزیز آنا چاہتے ہیں آئیں خیرمقدم کرینگے لیکن بات چیت صرف دہشت گردی پر ہوگی۔کشمیر پر بات چیت نہیں ہوگی۔ پاکستان کہتا ہے کہ کشمریویں کو فریق مانیں شملہ معاہدے میں یہ طے نہیں ہوا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے مذاکرات ٹوٹتے اور جڑتے رہتے ہیں۔ مذاکرات کی سڑک گڑھوں سے پُر ہے۔ کور ایشو کشمیر نہیں دہشت گردی ہے، ڈوزئیر لہرائے نہیں جاتے بند لفافوں میں دئیے جاتے ہیں۔ دریں اثناء بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کا فیصلہ افسوسناک ہے، ہمارا اصرار تھا پاکستان اوفا، شملہ معاہدے کی پاسداری کرتا۔