کشمیری اصل فریق ہیں‘ پاکستان بھارت اکیلے مسئلہ کا کیا حل نکالیں گے: بی بی سی
اسلام آباد (نیٹ نیوز/ بی بی سی) پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر بات چیت نہیں ہوسکی۔ ایک بار پھر اوفا میں جاری مشترکہ بیان کی تشریح پر مسئلہ اٹک گیا۔ بی بی سی کے مطابق اگر بالفرض بھارت کا موقف تسلیم کر بھی لیا جائے کہ بات دہشت گردی پر ہی کرنی ہے تو کیا کشمیر میں بھی اسے اسی قسم کا مسئلہ درپیش نہیں۔ کیا وہاں کے عوام کو ریاستی یا غیرریاستی بنیادوں پر اس کا سامنا نہیں؟ وہاں رونما ہونے والے تشدد کو پہلے سے کئی نام دیئے جا رہے ہیں۔ کوئی اسے جنگ آزادی کہتا ہے تو کوئی دہشت گردی، کوئی اسے مسلح مزاحمتی تحریک قرار دیتا ہے تو کوئی اسے جدوجہد کے نام سے یاد کرتا ہے۔ کشمیر کے موضوع پر بات کرنے کے انکار سے تو لگتا ہے کہ اب بھارت کشمیر میں جاری ”آتنگ واد“ کو دہشت گردی نہیں مانتا وہ کچھ اور ہے۔ بھارت مسلح تحریک کو دہشت گردی قرار دے کر اس پر واویلا کرتے نہیں تھکتا تھا تو اب کیا ہوا ہے۔ کیا اس بارے میں مشیروں کی کشمیر پر بات نہیں ہوسکتی تھی؟ بھارت کا یہ موقف بھی مبہم سا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان اوفا اور شملہ معاہدوں کے تحت باہمی موضوعات پر ہی بات کرسکتے ہیں اس میں تیسرے فریق کی گنجائش نہیں اور کشمیری رہنما تیسرا فریق ہیں۔ لیکن وہ شاید یہ بھول رہا ہے کہ کشمیری عوام اور رہنما تو مسئلہ کے اصل فریق ہیں۔ بھارت اور پاکستان اکیلے بیٹھے کر اس کا کیا کوئی پائیدار حل نکال پائیں گے؟ ماضی میں بھی پاکستانی رہنماﺅں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے قبل کشمیری قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ ہونے نہیں جا رہا تھا۔ 2001ءمیں آگرہ مذاکرات کے وقت اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس کی جازت دی تھی۔ بھارت کی جانب سے مذاکرات نہ ہونے کی ناکامی ایک اور بڑی وجہ وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی مانا جا رہا ہے۔ انہوں نے آگرہ میں اپنی جماعت کے رہنماو¿ں کی ایما پر مشرف سے مذاکرات کو ناکام کیا تھا۔ اب وہ یہی سب کچھ بطور وزیر خارجہ کر رہی ہیں۔‘ ایک بات اس وقت بھی واضح تھی اور آج بھی ہے کہ سفارت کاری اگر میڈیا کے ذریعے ہوگی تو اس کا حشر آج ہمارے سامنے ہے اور جو آگرہ سے زیادہ مختلف نہیں۔ اسلام آباد کے اوفا سے قبل کشمیر کے مسئلے پر موقف کے اچانک دوبارہ سخت ہونے کی ایک وجہ شاید اوفا میں جاری مشترکہ بیان میں اس نرمی کا مداوا کرنا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کی مشترکہ بیانات کی تاریخ میں کشمیر کا پہلی مرتبہ ذکر نہ ہونا تھا۔ اس وقت یہ بات کی گئی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف کو واپسی پر حزب اختلاف خصوصاً سکیورٹی سٹیبلشمنٹ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔ یہ بیان نواز شریف پر کئی حلقوں میں شدید تنقید کو باعث بھی بنا تھا۔ فی الحال محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مزید رابطوں کا مستقبل قریب میں امکان ختم کر دیا ہے۔ ہاں امریکہ وزحر خارجہ جان کیری کو شاید دوبارہ ٹیلیفون گھمانے کی ضرورت محسوس ہو یا پھر ستمبر میں اقوام متحدہ کا اجلاس دونوں ممالک کے درمیان لوڈشیڈنگ کی طرح آن آف مذاکراتی عمل میں کچھ مدت کے لیے دوبارہ جان ڈال دے۔ ورنہ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ’ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے دن تھے۔‘
بی بی سی