افغان طالبان میں مذاکراتی تعطل دور کرنے کیلئے خفیہ بات چیت جاری ہے: ترجمان
واشنگٹن،اسلام آباد(صبا ح نیوز) افغان طالبان کے اندر مذاکراتی عمل کے حوالے سے تحفظات اور تعطل کو دور کرنے کےلئے خفیہ بات چیت جاری ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تصدیق کی اس معاملے کے حل کے لیے علما اور زعما اجلاس کرتے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اجلاس کے مقام کے بارے میں کچھ بتانے سے احتراز کیا۔ امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں ترجمان نے کہا ہمارے علما بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا مقصد ہمارے چند ناراض بھائیوں کی جانب سے ظاہر کی گئی تشویش اور تحفظات کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا طالبان کی قیادت میں شگاف یا اصل اختلاف رائے کے بارے میں دی جانے والی خبریں غلط ہیں اور یہ کہ تنظیم کی یکجہتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ ملا عمر کے جانشین، ملا اختر منصور کے لیے کہا جاتا ہے وہ اپنے مخالفین کے حلقوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں مرحوم کے اہل خانہ کے ارکان و دیگر اعلی طالبان کمانڈر بھی شامل ہیں۔ شاذ و نادر دیے جانے والے ایک انٹرویو میں، نئے طالبان لیڈر کے ایک سیاسی مشیر، عبدالحئی مطمئن نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا شدید اندرونی اختلافات سے متعلق میڈیا اطلاعات درست نہیں۔انہوں نے بتایا طالبان کمانڈر اور طویل مدت کے اتحادی کو نئی قیادت پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ منصور ملا عمر کے نائب تھے اور جب ملا عمر زندہ تھے، وہ طالبان کے سیاسی اور فوجی امور کے حوالے سے رہنمائی کیا کرتے تھے۔ عبدالحئی کے بقول، شوری کے زیادہ تر ارکان نے منصور کی حمایت کی ہے۔ وہ بہترین انتخاب تھے، کیونکہ وہ چھ یا سات برس سے طالبان امور کا انتظام چلاتے رہے ہیں۔ انہوں نے آئندہ دِنوں کے دوران افغان حکومت سے امن مذاکرات کے امکان کو بھی مسترد کیا۔ منصور نے اپنے افتتاحی کلمات میں کابل کے ساتھ بات چیت کو مسترد کیا اور غیر ملکی افواج اور افغان حکومت کے خلاف بغاوت جاری رکھنے کا عہد کیا۔ پاکستان میں ایک تقریب کے دوران یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان، فرانز مائیکل ملیبن نے افغان امن اور مفاہمت کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے، اس ضمن میں انھوں نے پرتشدد کارروائیوں اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور کو درپیش اندرونی اختلافات کا ذکر کیا۔ بقول ان کے، وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان کے اندر منصور کو ایک سرکردہ شخصیت اور ایک ایسا فرد خیال کیا جاتا رہا ہے جو امن مذاکرات سے وابستہ رہے ہیں۔ مقابلہ کیا جائے تو دوسروں کا معاملہ ایسا نہیں۔ لیکن انھوں نے ایسا انداز اپنایا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے وہ ایسے شخص ہیں جو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے طالبان پر دباﺅ کی صورت میں رابطے کا سوچ سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے آیا وہ قائدانہ فرد کی حیثیت سے جمے رہیں گے۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے وہ اپنی پوزیشن مضبوط کرلیں گے۔ کہا نہیں جاسکتا، آیا وہ کچھ انتظار کے بعد مذاکرات کی میز کی طرف لوٹیں گے۔
افغان طالبان/ مذاکرات