برادرم ایاز صادق کیلئے ”جھوٹی“ باتیں
برادرم ایاز صادق نے سپیکر کے طور پر ساری مراعات واپس کر دی ہیں۔ انہوں نے اپنے سیکرٹریٹ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ میرے زیراستعمال گاڑی پروٹوکول سکیورٹی وغیرہ اور سب کچھ حکومت کو واپس کر دیا جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے اور اس کے لیے میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ورنہ ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے۔ لوگ اپنے سرکاری بنگلوں سے بہت سی ”چیزیں“ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ کچھ چیزیں جو وہ پہلے سے اپنے پاس رکھتے ہیں واپس کر کے سرکاری ”چیزیں“ لے لیتے ہیں اور واپس نہیں کرتے۔ کئی لوگ قالین بھی ساتھ لے جاتے ہیں کہ ان پر لیٹنے کا زیادہ مزہ آتا ہے۔
ہمارے ایک نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی وزیراعظم ہاﺅس سے کئی چیزیں ساتھ لے گئے۔ کچھ چیزیں ایوان صدر ”صدر“ زرداری نے انہیں دے دی تھیں کہ لوگوں کی نظروں سے بچا کے رکھنا۔ ایک بہت قیمتی ہار ترک خاتون اول نے سیلاب زدگان کی حالت زار دیکھ کر اپنے گلے سے اتار کر دے دیا تھا۔ وہ گیلانی صاحب نے اپنی بیٹی کے گلے میں ڈال دیا۔ پھر کچھ مدت کے بعد میڈیا کے واویلے کے بعد وہ ہار واپس کیا گیا۔ اسے لوگوں نے گیلانی صاحب کی اخلاقی ہار قرار دیا۔ ایسے سیاستدان اخلاق کو نہیں جانتے۔ اخلاقی ہار سے بھی واقف نہیں ہوں گے۔ سنا ہے کہ ایسے ہی کسی موقع پر گیلانی صاحب نے کہا تھا کہ میں اخلاق نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتا۔
ایاز صادق نے کہا کہ الیکشن کمشن کا فیصلہ کسی کی جیت ہے نہ کسی کی ہار ہے۔ ہم سارے قانونی معاملات کو جانتے ہیں مگر اپنا حق ضرور استعمال کریں گے۔ وہ بھی برادرم خواجہ سعد رفیق کی طرح stay order لے لیں گے۔ اسی طرح کا فیصلہ خواجہ صاحب کے لیے آیا پھر نجانے کدھر گیا۔ وہ بڑے دھڑلے سے وزیر ہیں۔ وہ ہیں بھی دھڑلے کے آدمی۔ بہت بڑے شہید باپ کے بیٹے ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی نرم خوئی اور خاکساری دیکھ کر کچھ لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ دونوں بھائی ہیں؟ برادرم رﺅف طاہر خواجہ صاحب سے بڑھ کر ان کے وکیل ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایاز صادق قومی اسمبلی کے آخری حتمی فیصلے تک سپیکر کی کرسی پر نہیں بیٹھیں گے۔ ان کی اور خواجہ صاحب کی پوزیشن میں بہت فرق ہے۔ یہ بھی ان کی سیاسی بڑائی ہو گی ورنہ یہاں تو پوری پوری حکومتیں سٹے آرڈر پر چلتی رہتی ہیں۔
ایاز صادق نے آغاز ہی سے چار حلقوں کے حوالے سے تحریک انصاف کی طرف سے بڑی بڑی باتوں کے جواب میں بڑے باوقار طریقے سے ایک طرز عمل اختیار کیا۔ کوئی عامیانہ بات نہ کی۔ ردعمل تو ان کی کسی بات میں نہ تھا جبکہ ہمارے اکثر سیاستدان ردعمل کو ردی عمل بنا دیتے ہیں۔
ان کو قومی اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا تو یہ بھی ان کی معتدل اور ممتاز شخصیت کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا تھا اور انہوں نے بہت شاندار اور بااعتبار طریقے سے ایوان کو چلایا۔ کسی کو ان سے شکایت پیدا نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ حکومتی پارٹی کے کسی وزیر شذیر کو شکایت نہ ہوئی۔ صرف برادرم شیخ محمد رشید خفا ہوئے۔ وہ کہتے ہیں مجھے بولنے نہ دیا گیا۔ کسی کی مجال ہے کہ انہیں بولنے نہ دے۔ وہ ہمیں کہتے تو ہم ایاز صادق کے سامنے جا کے نعرے لگاتے۔ یہ نعرے لگانے کی عادت ہمیں بول ٹی وی کے محاذ پر آزادی صحافت کے لیے لگانے سے پڑی۔ بول کو بولنے دو اور اب بول رہا ہے۔ بہت بڑے انسان سلمان اقبال نے حکومت اور بول والوں کی مدد کے لیے ایک پلان بنایا۔ اللہ کرے آزادی صحافت کا پرچم ہمیشہ بلند رہے۔ برادرم خاور نعیم ہاشمی نے آزادی صحافت کی تحریک کے لئے عمر بھر جدوجہد کی ہے۔ اب بھی ان کی قیادت میں تحریک چلائی گئی۔
ایاز صادق نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے لیے بڑے حوصلہ اور بردباری کا ثبوت دیا ہے۔ شیخ رشید سے گذارش ہے کہ وہ ہتھ ہولا رکھیں۔ عمران خان نے باتیں تو بہت کی ہیں مگر ایاز صاحب کے لیے اچھے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ یہ دونوں کے لیے مبارکباد کی بات ہے۔
یہ پارٹی کا فیصلہ تھا مگر مجھے یقین ہے کہ جونہی عمران خان نے چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا تھا تو ایاز صادق کبھی انکار نہ کرتے۔ دیر بھی نہ کرتے۔ ان کے صاحبزادے علی ایاز جوان ہیں۔ ان کا لہجہ کبھی کبھی سخت ہوتا ہے۔ ایاز صادق کا نہیں ہوتا۔ انہوں نے جس اچھے اور کھلے انداز میں برادرم کامران شاہد سے باتیں کیں۔ وہ قابل تعریف ہیں جبکہ اس پروگرام میں ڈاکٹر بابر اعوان نے بہت طاقت اور اعتماد سے بات کی۔ برادرم مجیب شامی اور سلمان غنی بھی سب چیزوں کو سمجھنے سمجھانے کے انداز میں بات کر رہے تھے۔ ن لیگ والے اس فیصلے کے بعد اگلی سیاست کے لیے ایاز صادق سے مسلسل مشورہ کریں گے تو بات بنی رہے گی۔
چند ہفتے پہلے ایاز صادق نے میرے ساتھ بات کی اور بتایا کہ میں اپنے حلقے کے لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا ہوں۔ آپ کا گھر بھی اس راستے پر آتا ہے۔ اور ایک دن وہ اچانک میرے گھر میں آ گئے۔ میں حیران ہوا کہ وہ خود کار ڈرائیو کر کے آئے تھے۔ ان کے ساتھ پروٹوکول تو تھا ہی نہیں۔ سکیورٹی کا ایک آدمی بھی ساتھ نہ تھا۔ اس طرح کی صورتحال میں نے برادرم پرویز رشید کے حوالے سے دیکھی ہے۔ وہ تو بالکل ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ نہ پروٹوکول نہ سکیورٹی۔ وہ مجھ سے خفا رہتے ہیں۔ شاید انہیں خود بھی پتہ نہیں کہ کیوں؟ میں بھی پٹھان ہوں۔ پٹھان اہل قلم ہو تو کیا ہوتا ہے۔ اس کے لیے جوش ملیح آبادی کو پہلے پڑھیں اور پھر کالموں پر نظر ڈالیں۔
گارڈن کالج راولپنڈی میں وہ میرے پاس میری کلاس میں تھے۔ شیخ رشید بھی تھا۔ پورے کالج میں کوئی فارسی پڑھانے والا نہ ملا تو مجھے بی اے کی فارسی آپشنل کی کلاس دے دی گئی جو لازمی مضمون تھا۔ ایک بار برادرم افتخار احمد سے یہی بات پرویز رشید نے بتائی تو میں نے کہا کہ فارسی تو دونوں رشیدوں نے مجھ سے پڑھی مگر تیل میں بیچتا پھرتا ہوں۔اور اب اس تیل کا خریدار بھی کوئی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے سے فارسی کا ذوق ختم ہونے کا بہت رنج ہے، فارسی ہماری تہذیبی زبان ہے۔