سپیکر کی رکنیت اور بھارت کو منہ توڑ جواب
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی 2013ءکے الیکشن میں بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی بنا پرقومی اسمبلی کی رکنیت معطل کردی گئی۔اس پر تحریک انصاف کے کارکن جشن منا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے پر بھی دھمالیں ڈالی تھیں۔دونوں فیصلوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے نواز لیگ کو ایک نئی سیاسی زندگی ملی تھی۔ جوڈیشل کمیشن اگر الیکشن 2013ءمیں منظم دھاندلی کی رائے دیتا تو نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین طے پانے والے معاہدے کےمطابق میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑتااورتمام اسمبلیاں توڑ کے دوبارہ الیکشن ہوتے۔جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعدن لیگ کی حکومت بچ گئی۔ایاز صادق کی رکنیت ختم ہونے کے فیصلے کو لے عمران خان پھر دھاندلی کا اشو اٹھا سکتے ہیں۔مسلم لیگ جتنی بڑی پارٹی اور اسکا جتنا وسیع مینڈیٹ ہے اسکے قائدین اور کارکنوں کا اتنا ہی دل تنگ ہے،کبھی تو یہ لوگ سنگ دل بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اسکی ایک تاریخ ہے۔سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ پر حملہ ماضی کے جھروکوں سے اب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوںگلو،پومی ،بلواور تماں جیسے لوگ مسلم لیگ ن میں عدم برداشت،تشدد اوربربریت کا استعارہ بن چکے ہیں۔فیصل آباد میں ایک رانا ہی ان سب پر بھاری ہے۔کوئی اور نہیں وزیر مملکت عابد شیر علی کے والد چودھری شیر علی نے ایک جلسے میں کہا کہ رانا ثناءاللہ نے بیس لوگوں کو قتل کرایا۔تحریک انصاف بھی اپنے کارکنوں کے قتل کا الزام انہی پر لگاتی ہے۔ماڈل ٹاﺅن میں عوامی تحریک کے 20 کارکنوں کا قتل یہ پارٹی رانا ثناءاللہ پر ڈالتی ہے۔پارٹی کیلئے جو اس قسم کے کارنامے انجام دیتا ہے پارٹی اسے اتنا ہی زیادہ مقام دیا جاتا ہے۔رانا ثناءاللہ کی وزارت بحال ہوگئی۔تشددکرنےوالوں کے مقدمات ختم کرکے باعزت بری کردیا گیا۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ماڈل ٹاﺅن واقعہ کی تحقیقات کےلئے کمیشن بنا کر اعلان کیا کہ اس کا فیصلہ میرے خلاف آیا تو دومنٹ میں استعفیٰ دیدونگا۔ رپورٹ اپنے خلاف آتے دیکھی تو اسے منظر عام ہی پر نہ لایا گیا۔کچھ لیڈر اس کمیشن کیخلاف کیس کرنے دھمکیاں دیتے رہے۔خواجہ سعد رفیق کی بے ضابطگیوں پر رکنیت معطل ہوئی تو ٹربیونل کو مطعون کیا گیا۔اب حلقہ این اے 122میں اپنے خلاف فیصلہ آیا تو ایاز صادق نے کہا کہ جج صاحب نے اپنی تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔ جج کےخلاف بھی قانونی چارہ جوئی کرینگے۔
دوسری طرف پرویزرشید گویاہوئے کہ جج صاحب نے تعصب کا اظہار کیا ۔پرویز رشیدیہ بھی کہتے ہیں کہ ایاز صادق کیساتھ میاں محسن لطیف کی رکنیت تو ختم کردی، تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال کی رکنیت کیوں بحال رکھی گئی؟میاں اسلم اقبال کی رکنیت پر جج یا تحریک انصاف کے وکیل نے نہیں،ایاز صادق کے وکیل نے سوال اُٹھاناتھا۔ایاز صادق کے وکیل انکے بیٹے تھے جن کو اپنے والد کی رکنیت بچانے سے غرض تھی۔انہوں نے میاں اسلم اقبال کی رکنیت پر کوئی سوال ہی نہیں اٹھایا تو پرویز رشید ان سے جاکر پوچھیں۔ایاز صادق نے بیٹے سے وکالت کرا کے بہت بڑی فیس بچا کر سیٹ گنوا لی۔اب حساب کررہے ہونگے کہ سودا مہنگا پڑا یا سستا۔پرویز رشیدکسے بیوقوف بنا رہے ہیں۔کیا انکی پارٹی کے امیدوار نے ہارنے کے بعد میاں اسلم کے خلاف شکایت درج کی تھی۔وہ بھی ٹربیونل جاتے تو اسلم اقبال کےخلاف بھی ٹربیونل سماعت کرتا۔
اس میں ٹربیونل نے یہ مہربانی کی کہ ایاز صادق یا محسن لطیف کو دھاندلی میں ملوث قرار نہیں دیا۔سارا ملبہ انتخابی مشینری پر ڈال دیا۔نادرا کی بھی خبر لی ہے کہ نادرا نے بدنیتی پر مبنی سپلیمنٹری رپورٹ تیار کی۔ایاز صادق کی رکنیت گئی۔عمران خان کا دعویٰ ہے دھاندلی نہ ہوتی تو وہ جیت جاتے ،محسن لطیف کو بھی صوبائی نشست سے ہاتھ دھونا پڑے۔انکے مد مقابل کو شکوہ ہے کہ فیئر الیکشن ہوتے تو وہ کامیاب ہوتے۔ٹربیونل کے فیصلے کےمطابق بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں انتخاب کرانےوالوں نے کیں۔اسکی سزا جیتنے والوں کو آج مل رہی ہے جو دھاندلی میں ملوث نہیں تھے۔ہارنے والوں کو کس جرم کی سزادی گئی۔بے ضابطگیاں جودھاندلی ہی کی ایک شکل ہے نہ ہوتیں تو وہ بھی جیت سکتے تھے۔انتخابی عملے کے نااہلی کی سزا کل تک ہارنے والے بھگت رہے تھے آج جیتنے والے بھگت رہے ہیں جو ذمہ دار ہیں وہ اپنے عہدوں پر برقرار ہیں۔ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنائے بنا انتخابی عمل میں شفافیت کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔عمران خان ان کےخلاف کارروائی کا بجا مطالبہ کررہے ہیں۔نادرا کی طرف سے سپلیمنٹری رپورٹ بغیر کسی کے کہنے کے پیش کرکے کس کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی؟۔بلا شبہ ہمارے مسائل کا حل ہر سطح پر کڑا اور بے لاگ احتساب ہے۔وہ الیکشن کمیشن اور نادرا سے شروع ہوجائے تو کم ازکم ملک میں انتخابی عمل تو برائیوں سے پاک ہوسکتا ہے ۔
ایاز صادق کو سپیکر کا منصب سپریم کورٹ کی طرف سے سٹے ملنے تک چھوڑنا پڑیگا۔انکی سپیکر شپ کے دوران قومی اسمبلی نے بڑے اتار چڑھاﺅ دیکھے۔گو وہ اپنی پارٹی کی کھل کر سائیڈ لیتے رہے تاہم ان کا عمومی رویہ جمہوریت دوست تھا۔انہوں اپنی رکنیت کے خاتمے سے دو دن قبل کامن ویلتھ کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کے سپیکر کو مدعو کرنے سے انکا کرکے اپنانام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے رقم کرالیا۔
دولت مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن کانفرنس 30 ستمبر سے 8اکتوبر 2015 تک اسلا م آباد میں ہونا تھی۔بھارت کا مطالبہ تھا کہ اس میں مقبوضہ کشمیر کے سپیکر کو بلایا جائے ۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نے کی بھارتی شرط مسترد کردی اور کانفرنس کی میزبانی سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔اس حرف انکار پر اگلے دنوں پاکستان کی طرف سے جرا¿ت مندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے پاکستان بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکرات کی کشمیر اشو زیر بحث نہ لانے کی شرط کو بھی ٹھکرا دیا گیا۔ہمارے اندرونی اختلافات اور تحفظات اپنی جگہ،سپیکر ایاز صادق اور حکومت نے بھارت کے حوالے سے حالیہ دنوں بھارت کو جودوٹوک جواب دیا اور فوج جس طرح سے بارڈر پرمنہ توڑ جواب دے رہی ہے یہ واقعی قومی امنگوں کی ترجمانی ہے۔