بلوچستان کا ہمدرد قوم کا محافظ آرمی چیف
کیسی دلچسپ مگر تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک جمہوری، فکری، سیاسی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہوا تھا، برصغیر میں غلام اور معتوب ہو چکے، مسلمانوں کے حوالے سے علماءکرام کے پاس کچھ سیاسی پروگرام موجود تھے مگر ان علماءکرام میں زیادہ تر مولانا ابواکلام آزاد، مجلس احرار، چوہدری رحمت علی کا فکر بھی موجود تھا اور متحرک بھی تھا مگر ہندوستان کے شمالی مغربی علاقہ جات پر مبنی الگ مسلمان ریاست کی جو فکر علامہ محمد اقبال نے دی اس کو بالآخر مسلم لیگی ایجنڈابنایا گیا۔ قائداعظم کی سیاسی جدوجہد کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ علامہ مشرقی جیسا سائنس اور ریاضی کا ماہر ترین شخص خاکسار تحریک لئے کھڑا تھا مگر عملاً عوام نے علماءکرام، چوہدری رحمت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، مجلس احرار اور علامہ مشرقی کے سیاسی نظریات نامی فکر کو اپنانے کی بجائے مدبر اقبال اور انکے ذریعے حقیقت پسند محمد علی جناح کی سیاسی مسلم لیگی جدوجہد کو قبول کیا مگر یہ بھی کیسی ”تکوینی“ بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے فوج اور جنرلز کی فعالیت کو بھی پاکستان کے ساتھ لازم وملزوم کر دیا تھا اگرچہ جب جنرلز ازخود اقتدار میں آئے بالعموم انکے اختتامی منظرنامے میں زیادہ پیچیدہ مسائل دیوار چین بنے دکھائی دیتے ہیں کچھ جنرلز کے اقتدار میں غیر اخلاقی فیصلے بھی ہوئے بلکہ غلط ترین فیصلے ہوئے جس سے شدیدقومی نقصان بھی ہوا مگر ہم رب کائنات کی بنائی ہوئی ”تکوینی حقیقت“ کو تقدیر الٰہی کے طور پر ماننے پر مجبور ہیں کہ بالآخر جب سیاسی اشرافیہ نامی حکومتیں شدید ناکامیاں، مسائل، الجھنیں پیدا کردیتی ہیں تب تب پھر سے ”فوج“ ہی کو آگے بڑھ کر فعالیت کا راستہ اپنانا پڑتا ہے، فوج ایک منظم عسکری قوت ہے اور کسی بھی عسکری قوت میں تنظیم ڈسپلن اور تعمیل حکم اس عسکری قوت کی کامیابی کا پہلا زینہ ہوا کرتا ہے اللہ تعالی نے اتمام حجت کے طور پر بدنام ترین آصف علی زرداری کو مکمل سیاسی راستہ دیا۔ پوری پارٹی دی، عوام نے انہیں اقتدار دیا اور فوج نے بخوشی یہ قبول کیا تھا مگر آصف علی زرداری نے اپنی پارٹی، عوام اور ملک کے ساتھ ظلم عظیم کیا، تب بھی جنرل کیانی کی فوج نے انہیں اقتدار کا عرصہ مکمل کرنے دیا، صنعت کار وتاجر میاں نواز شریف تو آئے ہی جنرل جیلانی کے ذریعے تھے اقتدار میں۔ انہیں مزید اقتدار کی ترقی بھی جنرلز نے ہی دی تھی یہ کور کمانڈر ملتان جنرل حمید گل تھے جس نے فوجی فیصلے کی صورت میں میاں نواز شریف کو آگے بڑھایا، وزیراعلیٰ کے بعد وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا۔ حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ کاروباری ذہن کے فعال اور اقتدار اعلیٰ کے ہمیشہ متمنی میاں نواز شریف نے ہر اس جنرل اور سیاسی رہنما کو منظر سے ہٹانے میں عافیت اور ترقی کا راستہ دیکھا جس کے کندھوں پر بیٹھ کر وہ ترقی پاتے رہے تھے تیسری بار کا اقتدار ناممکن تھا مگر اللہ تعالی نے ان کیلئے اور انکے خاندان کیلئے مسلسل وزارت اعلیٰ پنجاب دینے کیا اتمام حجت بھی کردیتی ہے، اب ان کے پاس مکمل اقتدار ہے مگر فوج کے کچھ جنرلز کے حوالے سے انکے کیمپ میں جس قسم کے منفی رجحانات موجود رہے ہیں اسکے جنرلز اور فوج کی انا اور عزت نفس بار بار مجروح ہوئی ہے تب بھی فوج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں میاں محمد نواز شریف کے اقتدار کےلئے راستہ کھولا ہوا ہے مگر یہ سیاستدان خود اتنا گند کردیتے ہیں کہ اس گند کو ختم کرنے کیلئے فوج ہی کو اور جنرلز ہی کو پھر آگے آکر فعالیت پیش کرنا پڑتی ہے، عمران خان نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ جنرل راحیل شریف نے ان سے وزیراعظم سے استعفیٰ دلوانے کی بات کو تسلیم نہ کیا تھا، عمران خان نے اپنے استعفے دیئے، اصولاً یہ استعفے آئینی طور پر منظور ہونا تھے مگر فوج نے آئین شکنی کو خاموشی سے دیکھا تاکہ سیاسی اشرافیہ خود ہی معاملے کو سنبھالے۔ اب ایم کیو ایم نے دوسرے لفظوں میں ایم کیو ایم اور کراچی وحیدر آباد کے اردو بولنے والے مہاجروں کو گاڈ فادر کے طور پر یرغمال بنانے والے مقیم لندن نے فوج، جنرلز، رینجرز کو آپریشن کلین اپ کے حوالے سے بلیک میل کیا اور استعفے دلوائے۔ اصولاً یہ استعفے تو فوراً اسپیکر کو قبول کرنا تھے کہ مستعفی ہونیوالے اراکین سب انکے سامنے موجود ہو کر استعفیٰ پیش کررہے تھے، اس بلیک میلنگ میں البتہ فوج نے مداخلت نہیں کی تاہم بلیک میل ہونے سے اب تک مکمل احتراز کیا ہے، کراچی میں جو کچھ امن اور سکون آیا ہے اور گاڈ فادر کے یرغمالی شہر میں نئی متحرک زندگی آئی ہے وہ صرف فوج، جنرلز اور آرمی چیف کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ضرب عضب کے ذریعے مذہب، جہاد، شریعت کی آڑ میں مسلح بغاوت کرتے عناصر جو عملاً بھارت کے وظیفہ خورد اور آلہ کار ہیں ان کےخلاف جرا¿ت مندانہ راستہ جنرل راحیل شریف اور انکے ساتھی جنرلز نے بھی اپنایا ہے۔ بلوچستان طویل مدت سے سیاسی سرکشی اور عسکری بغاوت کی آماجگاہ ہے جنرل کیانی نے بلوچستان کے حوالے سے عمدہ کام کئے مگر جنرل راحیل نے تو عمل کر کے بلوچستان کو امن، ترقی، استحکام دینے کیلئے جرا¿ت مندانہ اقدامات کئے ہیں، جنرل جنجوعہ کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہوا پوری دنیا دیکھ رہی ہے، باغی ہتھیار ڈال رہے ہیں، ناراض بلوچ سرداروں سے مکالمہ اور مذاکرات کا مشکل ترین راستہ اپنایا جا چکا ہے۔ نواب آف قلات سے وزیراعلیٰ بلوچستان، سیاسی قائدین اور جرگہ کے لوگ جا کر ملے ہیں اور انہیں واپس آکر اپنا مثبت کردار ادا کرنے کو کہا جا رہا ہے، تعلیم اور قلم کا تحفہ بلوچی نوجوانوں کو دیا گیا ہے۔ یہ سب عمدہ ترین اور منفرد ترین پیش قدمی صرف جنرل راحیل شریف کی مدبرانہ قیادت کے طفیل ہے، وہ بلوچستان سے ”را“ اور بیرونی ایجنسیوں کے کھیل کا مکمل خاتمہ کرنے میں مصروف ہیں، اس وقت بلوچستان کی طرف انکی سب سے زیادہ توجہ ہے شاید اسکی اہم ترین وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ 16جون 1956ءکو ضلع کوئٹہ میں پیدا ہوئے تھے، یوں جنرل راحیل شریف کا بلوچستان سے قلبی تعلق قابل فہم ہے۔