• news

قوانین سخت‘ عملدرآمد نہیں‘ پاکستان میں پائریسی کی بدترین صورتحال

اسلام آباد (بی بی سی) پاکستانی قانون کے مطابق کاپی رائٹس کی خلاف ورزی یا پائریسی کی سزا کسی بھی دوسرے سنگین جرم کی طرح انتہائی سخت یعنی ناقابل ضمانت ہے۔ لیکن بی ایس اے نامی بین الاقوامی تجارتی تنظیم کے مطابق اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں پائریسی کی شرح 86 فیصد ہے۔ یہ ادارہ ان ممالک کو پائریسی کی بدترین صورت حال کا شکار درجہ بندی میں ڈالتا ہے جہاں اس کا تناسب 85 فیصد سے زیادہ ہو۔ دوسری طرف ایک مرتبہ پھر اس سال ایک حالیہ رپورٹ میں امریکہ نے چین اور بھارت سمیت پاکستان کو بھی دانشورانہ املاک کے حقوق کے نفاذ کے سلسلے میں کسی معنی خیز پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے بدستور ترجیحی واچ لسٹ پر رکھا ہے۔ یہ بات پاکستان میں دانشورانہ املاک کے حقوق کے تحفظ کیلئے 2005ء میں قائم کیے گئے ادارے انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن یا آئی او پی کے اہلکار محمد اسماعیل نے الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی پیمرا کے زیرانتظام ایک نشست میں بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ بی ایس اے کے معیار کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں پائریسی کا تناسب 20 سے 35 فیصد بتایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی دباؤ کے پیش نظر چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے پاکستان نے بھی اس جانب توجہ دینا شروع کر دی ہے اور آئی پی او نے اس بارے میں کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ’ہمارے ہاں کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے قوانین انتہائی سخت ہیں۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں آپ کو تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، لیکن مسئلہ عمل درآمد کا ہے۔‘ گزشتہ کچھ عرصے سے اس جرم پر سزائیں بھی دی جانا شروع ہوئی ہیں، لیکن وہ انتہائی کم ہیں۔ کسی دکان کو کسی کتاب کی جعلی کاپی فروخت کرنے پر ہزار دو ہزار روپے جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کاپی رائٹس اور پائریسی کے پیچیدہ مسائل سے آگاہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور ججوں کی کمی ہے۔ عدلیہ کی مشکل انٹلیکچوئل رائٹس سے متعلق مقدمات کی سماعت کیلئے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں خصوصی ٹریبونلوں کے قیام سے حل ہو سکتی ہے۔ ایف آئی اے، کسٹمز حکام اور پولیس نے بھی اس جانب پیش رفت شروع کی ہے تاہم وہ یقیناً انتہائی سست ہے۔ 2012ء میں ایف آئی اے نے پائریسی کے خلاف 30 چھاپے مارے لیکن گزشتہ برس 2014ء میں ان کی تعداد بڑھ کر 117 تک جا پہنچی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ عالمی تنظیموں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کاپی رائٹ کے تحت قیمتوں کو ترقی پذیر ممالک کے عوام کی قوتِ خردید کے مطابق رکھیں۔ اگر ایک اصل کتاب پانچ سو روپے کی ہوگی تو ہر کوئی اصل خرید لے گا لیکن اگر پانچ ہزار کی ہو تو اکثر لوگ جعلی ایڈیشن کی جانب ہی جائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن