• news

جمعرات ‘11 ذیقعد ‘ 1436ھ ‘ 27 اگست 2015ئ

نوازشریف کی کسی سکیورٹی کے بغیر آستانہ کی شاہراہوں پر چہل قدمی۔ 

ہمارے ہاں آستانہ کسی بزرگ کی خانقاہ کو کہتے ہیں۔ جہاں دنیا بھر کے دکھوں اور غموں کے مارے لوگ آ کر کچھ دیر کے لئے اپنے دردوغم بھول جاتے ہیں۔
قازقستان کے دارالحکومت ”آستانہ“ میں جا کر ہمارے دکھی وزیراعظم نے بھی کچھ دیر راحت کا سانس لیا ہو گا اور وہاں کے نرم و لطیف ماحول اور خوبصورت مناظر سے دل بہلانے کے لئے وہ شہر کی سیر کو نکل پڑے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا ....
عقیدت کچھ بنا دے ورنہ پتھر صرف پتھر ہے
حرم کے در میں ہو یا بت کدے کے آستانے پر
پاکستان کا اسلام آباد کسی بھی صورت قازقستان کے آستانہ سے کم نہیں۔ ویسے ہی سرسبز پہاڑ، خوبصورت موسم اور محبت کرنے والے لوگ یہاں بھی پائے جاتے ہیں مگر کیا کریں کہ یہاں کے آستانوں میں براجمان حکمرانوں نے صرف اور صرف اپنے لئے آرام وعیش کے اسباب پیدا کئے۔ عوام الناس کو غربت، بھوک اور افلاس میں مبتلا کئے رکھا۔ جس کی وجہ سے یہاں کوئی حکمران سڑکوں پر سیر سپاٹے کرتا عوام سے خوش گپیاں لگاتا نظر نہیں آتا۔ سب اونچے اونچے محلات میں قیدیوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اب میاں صاحب کی اس خواہش پر کہ پاکستان میں بھی ایسا وقت آ جائے گا صرف یہی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ دہشت گردی کا تو مشرف دور کا تحفہ ہے۔ اس سے پہلے ہمارے حکمرانوں نے کون سا تیر مارا۔ یا کمال دکھایا تھا کہ عوام ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ انہوں نے تو ہمیشہ اپنے اور عوام کے درمیان فاصلہ برقرار رکھا تاکہ حاکم و محکوم کا فرق نظر آتا رہے۔
٭....٭....٭....٭
ملتان میں پہلوانوں نے معاشی حالت سے تنگ آ کر لیموں کے ساتھ اپنے گُرز اور میڈلز بھی فروخت کے لئے ریڑھی پر سجا لئے۔
اب اس ناقدری ایام کا گلہ کس سے کیا جائے۔ حکمران جو کبھی فن پہلوانی کے سرپرست ہوتے تھے۔ آج کل خود سیاسی کشتی میں ایسے پھنسے ہیں کہ انہیں ہر لمحے مدمقابل کیخلاف نت نئے داﺅ پیچ سوچنے سے فرصت نہیں۔ وہ بھلا اس مٹتے ہوئے فن پر کیا توجہ دینگے۔
قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے راجے، مہاراجے، نواب اور والیان ریاست نے ہمیشہ فن پہلوانی اور فن گائیکی پر توجہ مرکوز رکھی جس کی وجہ سے بڑے بڑے نامور پہلوانوں نے برصغیر کی شہرت میں اضافہ کیا۔ بڑے بڑے نامور مغنیوں نے نام کمایا۔ اگر ان کی فہرست مرتب کریں تو کتاب تیار ہو سکتی ہے۔
پھر وقت بدلا تو والیان ریاست، نوابوں اور راجہ مہاراجوں کی جگہ نودولتیئے سیاست دانوں نے لے لی جو خاندانی نواب اور مہاراجہ نہیں تھے وہ بھلا کسی کی سرپرستی کیوں کرتے۔ ان حکمرانوں نے دوسروں سے زیادہ اپنی اور اپنے خاندانوں کی سرپرستی شروع کر دی تاکہ مال و زر کے زور پر اپنا سلسلہ نسب بھی قدیم بادشاہوں اور مہاراجوں کے ہم پلہ قرار دے سکیں۔
دیسی فن پہلوانی کی جو ناقدری آج کل ہمارے ہاں ہے وہ شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ گاماں، بھولو، اکی اور اچھا پہلوان کے بعد صرف جھارا یا لے دے کر ناصر بھولو کا نام چند روز کے لئے چمکا۔ پھر ان کی خبر بھی نہیں ملی۔
کبھی پنجاب کے اکھاڑے صبح شام کسرت کرنے والے پہلوانوں اور انکے پٹھوں سے بھرے ہوتے تھے مگر آج کل وہاں کوئی ضرب المثل والا پٹھہ بھی دستیاب نہیں۔ ان حالات میں جو تھوڑے دیسی پہلوان ذاتی سرمایہ اور محنت سے کچھ بن کر دکھاتے ہیں وہ حکومتی پرستی نہ ہونے کی وجہ سے ریڑھی لگانے پر مجبور ہیں۔ اگر حکمران سیاسی دنگل سے کچھ وقت نکال کر ان دیسی پہلوانوں کی طرف توجہ دیں تو بہت سے قابل فخر سپوت، نامور پہلوانوں کا روپ دھار سکتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
اندرون سندھ سے افغانستان، ایران اور خلیجی ممالک کو زندہ جانوروں کی سمگلنگ کا انکشاف۔
جس ملک میں زندہ انسانوں کی بیرون ملک سمگلنگ کا دھندا تمام تر رکاوٹوں اور عالمی برادری کی شکایتوں کے باوجود عروج پر ہو۔ انسانی سمگلر لاکھوں نہیں کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ وہاں بے چاری بے زبان بھیڑ بکریوں، اونٹ، بیل اور گائیوں کی پکار یا فریاد کون سنے گا۔ یہ بے چارے بے زبان جانور تو بارڈر کراس کرتے ہوئے پاکستانی محافظوں کو دیکھ دیکھ کر.... ع
”آکھیاں والی¶ بھائیو ساڈی سن لو فریاد“
بھیں بھیں، اوآں اوآں، بھاں بھاں اور میں میں کرتے گزر جاتے ہیں مگر کوئی ان کی آہ و بکا پر توجہ نہیں دیتا۔ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں عرصہ داز سے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے راستے سالانہ لاکھوں زندہ جانور ہی نہیں‘ آٹا، چاول، چینی، گھی کے ساتھ پانی بھی وافر مقدار میں ان ممالک میں سمگل ہوتا ہے۔ یہ سامان خوردونوش ہو یا زندہ جانور یہ کوئی سوئی یا کنکر تو نہیں کہ خاموشی سے جیب میں رکھ کر یا مٹھی میں دبا کر کوئی سرحد پار لے جائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ باہمی افہام و تفہیم سے یہ سارا مکروہ کام نہایت ایمانداری سے میرقاسم، میرجعفر قسم کے چند سرحدی نگران انجام دے رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسانی سمگلروں کے ہاتھوں بیرون ملک جانے والے انسان یا تو جیلوں میں پہنچ جاتے ہیں یا قبرستانوں میں جب کہ اکثر بے چاروں کا تو گوروکفن بے رحم سمندر کا پانی بنتا ہے۔
اب کوئی بھی عقل مند حکومت اربوں کھربوں روپے کے اس دھندے کو بند کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی کیونکہ اس اوپر والی کمائی کے مناسب حصے سے ان کو بھی دانہ پانی میسر ہوتا ہے۔ ویسے بھی افغانستان ہو ایران یا خلیجی ریاستیں یہ سب ہمارے مسلم بھائی ہیں ان کے کھانے پینے کا خیال رکھنا کار ثواب ہی ہے۔ بس دکھ تب ہوتا ہے جب افغانستان جیسا بدخصلت بھائی ہمارے پرچم اور قومی قائدین کی تصاویر کی بے حرمتی کرکے ہماے خلاف نام نہاد جہاد کا اعلان کرکے نمک حرامی کا ثبوت دیتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن