عرفان صدیقی کمیٹی : یہ سب تمہارا کرم ہے آقا...
دیر آید درست آید کے مصداق بالآخر سپریم کورٹ کی ہدایت پر عرفان صدیقی کمیٹی کی جانب سے تیار کئے جانےوالے میڈیا ضابطہ اخلاق کے 24 نکات کو تسلیم کرتے ہوئے گذشتہ ہفتے وفاقی وزارت اطلاعات نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے ۔ گو کہ پریس کےلئے ضابطہ اخلاق کی ضرورت تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی محسوس کی جاتی رہی تھی لیکن گذشتہ چند عشروں میں نجی الیکٹرانک میڈیا کے بے شمار tv چینلز کے منظر عام پر آنے اور بیشتر چینلزسے بیرونی ذرائع سے حاصل شدہ پروگراموں اور اشتہارات کے ذریعے نظریہ¿ پاکستان ، قومی یکجہتی ، اسلامی اخلاقی قدروں، لسانی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی سیکیورٹی آپریشن کے منافی پروگراموں کی مادر پدر آزاد بھر مار نے اِس ضرورت کو یقینی بنا دیا تھا ۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی کہ الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں میں شاعر مشرق علامہ اقبال کو ایک معمولی مقامی شاعر اور تقسیم ہند کے مقابلے میں متحدہ ہندوستان یعنی اکھنڈ بھارت کے تصور کی کھلم کھلا تلقین کی جانے لگی تھی۔ خوش فہمیاں اِس قدر بڑھ چکی تھیں کہ ایک لسانی سیاسی تنظیم کے غیر ملکی شہریت رکھنے والے لیڈر الطاف حسین نے عسکری اداروں پر الزامات کی بھرمار کرنے کے علاوہ یہ لاف زنی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ اگر برّصغیر کے تینوں ملک یعنی پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت ایک ملک (اکھنڈ بھارت) ہوتے تو وہاں ہماری حکمرانی ہوتی ،کیسے ہوتی، بیرونی ترنگ میںاِس دعویٰ کا جواب اُنکے پاس نہیں ہے ۔ اِس سے قبل بھی وہ تقسیم ہند کو انسانی تاریخ کی بھیانک غلطی قرار دیتے رہے ہیں جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ سیاسی و سماجی قیادت کے بیشتر رہنما اِس اَمر پر متفق ہیں کہ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو بھارت میں ہندوازم کی جذب وعمل کی پالیسی مسلمانوں کی مکمل تباہی و بربادی کی شکل میں ظاہر ہوتی۔اِسی فکر کا اظہار قائداعظم محمد علی جناح نے 14 اگست 1947 کو مجلس دستور ساز میں یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ ہندوستان کے آئینی مسئلے کا حل تقسیم کے سوا کچھ اور نہیں تھا ۔ اکھنڈ بھارت کا تخیل ہرگز قابل عمل نہ ہوتا اور میری رائے میں وہ ہمیں زبردست تباہی کی طرف لے جاتا۔ مولانا ابولکلام آزاد جنہوں نے متحدہ ہندوستان کی سیاسی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا تھا، نے بھی قیام پاکستان کے بعد یہی کہا تھا کہ اب چونکہ پاکستان بن گیا ہے لہذا اِسے ہر صورت قائم رہنا چاہیے کیونکہ اِسکے قیام میں بھارتی مسلمانوں کی بہتری پنہاں ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد 18اگست 1947 میں قائداعظم نے کہا تھا کہ جو ہمارے مسلمان بھائی بھارت میں ہیں ہماری دلی ہمدردیاں اُن کےساتھ ہیں اور ہم اُنکی بہتری کےلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، اِسی حوالے سے 11 اکتوبر 1947کو قائداعظم نے بھارتی مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھارت کے وفادار رہیں اور بدلے ہوئے حالات کےمطابق اپنی تنظیم نو کریں اور موجودہ حالات کےمطابق درست رہنماﺅں کا انتخاب کریں تاکہ اِس پُر آشوب زمانے میں وہ اُنکی ٹھیک سے رہنمائی کریں ۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ قائداعظم کی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار کی بہتری کےلئے سابق وزیراعظم لیاقت علی خان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کےلئے اپریل 1950 میں نئی دہلی گئے اور لیاقت نہرو معاہدے پر دستخط کئے جس میں وضاحت سے کہا گیا کہ دونوں ریاستیں حلفاً اِس اَمر کا اقرار کرتی ہیں کہ اقلیتوں کو بِلالحاظ و مذہب و ملت حقوق شہریت میں مساوات ، املاک و تہذیب اور ذاتی عزت و ناموس کے تحفظ ، آمد و رفت اور قانون و اخلاق عامہ کی حدود میں پیشے ، تقریر و عبادت کی آزادی دینگے ۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے بھارت کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے، لہذا ایم کیو ایم کی بیرون ملک مقیم قیادت کی جانب سے بار بار کراچی کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے میڈیا چینلز پر ملک کی سلامتی کے منافی الزامات پر مبنی گفتگو کرنا اور بیرونی ایجنسیوں کو مداخلت کی دعوت دینا جس کے سبب عوام الناس میں مملکت کے بارے میں بددلی ، بغاوت اور نسلی منافرت کے جذبات جنم لیں ، کے سدباب کےلئے قومی لائحہ عمل تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی جسے بہرحال عرفان صدیقی کمیٹی نے بخوبی سرانجام دیا ہے۔ عرفان صدیقی نظریہ¿ پاکستان میں یقین رکھنے والے ایک محب وطن پاکستانی ہیں جن کی تحریر و تقریر میں قائداعظم اور علامہ اقبال کی فکر بخوبی جھکتی نظر آتی ہے ۔ درج بالا تناظر میں اِس اَمر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح عوامی فکر کو مہمیز دینے اور اِسے مثبت بنیادوں پر قائم کرنے کےلئے پریس کے کردار کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتے تھے ۔
عرفان صدیقی کمیٹی کے 24 نکات کا سیاق و سباق اور باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت کلی طور پر منکشف ہو جاتی ہے کہ اِس کمیٹی نے حقیقی معنوں میں اپناقومی حق ادا کیا ہے ۔اِن نکات میں الیکٹرانک میڈیا سے کہا گیا ہے کہ وہ اسلامی اقدار ، نظریہ¿ پاکستان اور قائداعظم و علامہ اقبال سمیت بانیان قوم کے بارے میں منافرت پر مبنی مواد کی عدم نشریات کو یقینی بنائے چنانچہ میڈیا ضابطہ اخلاق کی روشنی میں جن 24 نکات کا تذکرہ کیا ہے اُن میں یقینا نظریہّ پاکستان کے تحفظ کی روح بھی جھلکتی نظر آتی ہے ۔ یہ اَمر خوش آئند ہے کہ میڈیا کےلئے اِس ضابطہ اخلاق میں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں باالترتیب قائداعظم کی 11 اگست اور 14 اگست کی تقاریر کے مندرجات سے استفادہ کیا گیا ہے ۔
قائداعظم نے اِن تقاریر میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق دینے اور تمام مذاہب کی عبادگاہوں کی حفاظت کو ریاستی ذمہ داری قرار دیا تھا ۔ 17 اگست کو قائداعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مملکت پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کے شہریوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ونیا کو دکھا دیں کہ مختلف عناصر کی ایک قوم کس طرح امن و محبت اور بِلا امتیاز مذہب و ملت تمام شہریوں کی بہبود کےلئے ایک قوم بن کر زندہ رہ سکتی ہے ۔ چنانچہ جب میڈیا ضابطہ اخلاق میںیہ کہا گیا کہ پاکستان کی یکجہتی اور سا لمیت یا وفاق پاکستان کے خلاف ہتھیار اُٹھانے پر ابھارنا یا کسی مذہب فرقے یا برادری کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دینا یا ایسے الفاظ استعمال کرنا جو مذہبی فرقوں اور لسانی گروپوں میں عدم ہم آہنگی کا سبب بنیں میڈیا ضابطہ اخلاق کے خلاف سمجھے جائیں گے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مملکت پاکستان حالات کی بہتری کےلئے اپنا سفر ایک مرتبہ پھر اُسی جگہ سے شروع کرنا چاہتی ہے جہاں قائداعظم اِسے چھوڑکر رخصت ہوئے تھے ۔ ہمارے اربابِ اختیار اور سینئر صحافیوں کو ہمسایہ ملک بھارت کے میڈیا کی قومی فکر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جو پاکستان کے خلاف بھارتی حکمرانوں کی ٹیلرڈ انفارمیشن پر بھی ہاہاکار مچانے سے نہیں چوکتے جبکہ بیرونی ذرائع سے متاثر ہمارے کچھ میڈیا چینل حقائق کو بھی توڑ پھوڑ کر پیش کرنے سے نہیں چوکتے َ۔ بہرحال عرفان صدیقی کمیٹی رپورٹ کی منظوری کے بعد اُمید کی جانی چاہیے کہ میڈیا ضابطہ اخلاق کے اصولوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دیگر اداروں بالخصوص تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم کا حصہ بنانے اور نظریہ¿ پاکستان کے فروغ کےلئے مقدور بھر کوششیں کی جائیں گی ۔ محترم عرفان صدیقی مبارک باد کے مستحق ہیں اور چونکہ وہ وزیراعظم پاکستان کے مشیر کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں ، اِس لئے اُمید واثق ہے کہ وہ میڈیا ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل درآمد کو مانیٹر کرنے کےلئے بھی ضروری اقدامات کرینگے کیونکہ درست نتائج اخذ کرنے کے باوجود ہم عمل کے میدان میں اچھی شہرت نہیں رکھتے ہیں بقول مظفر وارثی .......
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے