پرویز رشید ایک چوہے کو قتل نہیں کر سکتا؟
جسٹس (ر) کاظم علی ملک نے حلقہ 122کے لئے فیصلہ دیا ہے۔ جسٹس کے خلاف برادرم رانا ثناءاللہ نے بہت سخت باتیں کیں۔ ان کا ذکر بھی ہو گا مگر پہلے کاظم علی ملک کی بات سنئے جو بہت دلچسپ ہے۔
”مجھے پرویز رشید قتل کرنا چاہتا ہے؟ “ اس جملے کے بعد میری ہنسی رکتی نہیں ہے۔ عزیزم پرویز رشید بیچارہ کسی چوہے کو قتل نہیں کر سکتا۔ چوہے کے قتل کی بات بھی دلچسپ ہے۔ اگر پرویز اتفاقاً کسی چوہے کو جان سے مارنے میں کامیاب ہو جائے تو ہم اسے چوہے کا قتل ہی کہیں گے۔ پرویز رشید کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے مگر اسے قاتل اور ظالم نہیں کہہ سکتے مگر وہ ظالم کبھی کبھی بیانات بڑے ظالمانہ دیتا ہے۔ وہ اگر سیاست میں نہ آتا تو یہ ظلم بھی نہ کر سکتا تھا پرویز نے کہا ہے کہ میں خود کاظم صاحب کے گھر جا کر ان سے معافی مانگنے کو تیار ہوں۔ آپ اس شخص کی دلسوزی دیکھیں کہ جو جرم اس نے نہیں کیا نہ کر سکتا ہے اس کے لئے بھی معافی مانگنے کے لئے تیار ہے۔ اب تو کاظم صاحب سے گزارش ہے کہ اسے معاف کر دیں۔
البتہ جو بات رانا ثناءاللہ نے جسٹس (ر) کاظم علی ملک کے لئے کہی ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ ن لیگ کے خلاف لگاتار تین فیصلے آنے کے بعد رانا صاحب کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی۔ عمران نے چار حلقوں کے حوالے سے بات کی تھی جن میں تین حلقوں کے لئے وہی بات نکلی جو عمران نے کہی تھی۔ اب برادرم عرفان صدیقی نے مشورے کے طور پر کہا ہے کہ تین سو سے زائد کے ایوان میں تین حلقے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ وزیراعظم کے مشیر ہیں۔ ہمارے ہاں مشیر کے عہدے پر فائز شخص صرف مشورے ہی نہیں دیتا باقی سب کام کرتا ہے جو نہیں کرنے والے ہوتے۔ اس میں وزیر مشیر اور سفیر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ تین حلقوں میں بے ضابطگیاں نکل آئی ہیں تو تین سو میں بھی نکل آئیں گی پھر عرفان صدیقی کا مشورہ کیا ہو گا؟ اگر چار کھولنے کا عرفانی مشورہ نواز شریف کو مل جاتا تو بات سامنے آ جاتی۔ اب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران ٹھیک کہتا تھا البتہ ایاز صادق کے لئے میرا خیال یہ ہے کہ وہ نوبل آدمی ہے۔
بات رانا صاحب کے ارشاد کی ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس (ر) کاظم علی کے بیٹے کو ہم نے ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ جو اس نے ہم سے مانگا تھا تو اسی رنجش کا بدلہ انہوں نے لیا ہے۔ پاکستان میں انصاف کی اوقات کو رانا صاحب نے بہت وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ اب جسٹس صاحب نے سیاستدانوں والی بات کی کہ رانا صاحب اپنی بات کو ثابت کر دیں تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ یہ تو سیاستدان ہیں جو بات بات پر کہتے رہتے ہیں اور آج تک کسی ایک نے استعفیٰ نہیں دیا۔ اب رانا صاحب اپنی بات کس عدالت میں ثابت کریں گے۔ عدالتوں پر بھی لوگوں کا ”سیاستوں“ کی طرح اعتماد اٹھ گیا ہے۔ کاظم صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ٹکٹ کے لئے جو پیسے دیے تھے اس کا حساب لائیں ٹکٹ کی فیس کا۔ یہ پیسہ کہا جاتا ہے کہ یہ فیس لاکھوں کروڑوں میں ہوتی ہے۔ پھر بھی مستقبل کے ارکان اسمبلی خوش ہوتے ہیں۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ نامور قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ جج کو ٹی وی پر آ کے بیان نہیں دینا چاہئے وہ توہین عدالت کا نوٹس دے۔اگر کاظم صاحب نے فیصلہ ن لیگ کے حق میں دیا ہوتا تو کیا رانا صاحب یہ بات کہتے؟ تو پھر تحریک انصاف والے کیا کہتے؟ یہ سیاست کی گرم بازاری کیا ہے؟ سیاستدانوں کی زبانوں کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ شور شرابہ ہے۔ اس میں لگامیں کم پڑ جائیں گی۔ جسٹس کاظم کہتے ہیں کہ میں نے 19فیصلے ن لیگ کے حق میں بھی دیے ہیں۔ تب رانا صاحب نے ان کے بیٹے کو کون سا ٹکٹ دیا تھا؟
پرویز رشید اور شیریں مزاری کا مقابلہ چلتا رہتا ہے۔ تحریک انصاف والوں نے شیریں مزاری کو تحریک انصاف کی ”صدر“ زرداری قرار دیا ہے۔
اک مزاری۔ ان پر بھاری
وہ واقعی بھاری ہیں بلکہ بھاری بھرکم ہیں۔ ایک دن لغزش پا کا بہانہ بنا کر پرویز رشید پر گر پڑیں۔ روز روز کے ہنگامے سے جان چھوٹ جائے گی۔ ایک بات شیریںکے کڑوے لیڈر عمران خان نے بھی دلچسپ کی ہے۔ نواز شریف پرویز رشید کو ہٹا کے خورشید شاہ کو اپنا ترجمان بنا لیں۔ یہ زیادتی ہے پھر بیچارے ”صدر“ زرداری کیا کریں گے۔ میرے خیال میں خورشید شاہ بڑے شریف آدمی ہیں مگر نواز شریف نہیں ہیں۔ اب جب تک شریف آدمی نواز شریف نہیں بنتا تو اس کا کام نہیں چل سکتا۔ میرے خیال میں خورشید شاہ اور قائم علی شاہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اگر کبھی ”صدر“ زرداری کو غصہ آ گیا تو وہ یہ کریں گے کہ خورشید شاہ اور قائم علی شاہ کا باہمی تبادلہ کر دیں گے۔ قائم علی شاہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور خورشید شاہ سندھ میں وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ ایک ہی بات ہے لہٰذا ”صدر“ زرداری کو کوئی ”خطرہ“ نہیں ہے؟ ایک دن یہ حادثہ اچانک ہو جائے گا اور سب حیران ہو جائیں گے مگر پریشان نہیں ہوں گے۔
عجیب اتفاق ہے جینوئن سیاستدان شہلا رضا قائم علی شاہ کی بہت مداح ہیں اور غالباً شیری رحمان خورشید شاہ کے لئے مہربان ہیں۔ ایک دفعہ ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی ریت روایات والی شہلا رضا کے لیے قائم علی شاہ احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے تو شہلا بی بی نے کہا کہ آپ تو میرے دادا جان کے بہت دوست تھے۔ میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ ایسا کوئی واقعہ شیری رحمان اور خورشید شاہ کے درمیان ہوا ہوتا تو شیری کہتی آپ یہ نہ کریں۔ آپ تو عمر میں رحمان ملک سے بھی بڑے ہیں۔ نجانے شیری اور شیریں میں کیا فرق ہے؟
تینوں حلقوں کے فیصلے کے بعد مجھے مریم نواز کی بات اچھی لگی ہے۔ ”اب فیصلہ انتخاب کے میدان میں ہو گا۔ تحریک انصاف سے انتخاب میں نبٹیں گے۔ یہی اصل سیاست ہے۔ عدالتوں کا سہارا لینے سے سیاسی معاملات خراب ہوتے ہیں۔ کسی کو بھاگنا نہیں چاہیے۔“ خواجہ سعد رفیق بھاگ گئے تھے۔ اب بھاگ کر واپس آئے ہیں۔ تینوں حلقوں میں انتخابات ہوں گے۔ اصل میں صدیق بلوچ عمر بھر کے لیے نااہل ہو گئے تو Stay کس کے لئے لیا جائے۔ ایاز صادق نے کہا کہ میں الیکشن میں جاﺅں گا۔ یہی نوبل راستہ ہے۔ وہ اپنے حلقے میں بہت مقبول ہیں۔ کچھ کام بھی کرایا ہے۔ لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ ایک دن میرے گھر بھی خود گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے آ گئے۔ کہنے لگے کہ تمہارا گھر میرے راستے میں ہے۔ نہ پروٹوکول نہ سکیورٹی؟
گلگت بلتستان کے گورنر برجیس طاہر نے کہا کہ عمران نے جوڈیشل کمشن کے فیصلے سے سبق نہیں سیکھا تو (ن) لیگیوں نے الیکشن ٹربیونل کے اوپر تلے تین فیصلوں سے کیا سبق سیکھا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ چار حلقوں کے بارے میں عمران ٹھیک کہتا تھا تو نواز شریف نے یہ حلقے کیوں نہ کھولے۔ برجیس طاہر کی خدمت میں عرض ہے کہ جو الیکشن ضابطے کے مطابق نہ ہو تو وہ دھاندلی ہی ہوتی ہے۔ اتنی بے ضابطگیاں کسی منظم پلاننگ کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔ میں عمران کی باتوں سے بھی متفق نہیں ہوں مگر؟
مریم نواز کی بات پر عمل کریں۔ ری الیکشن کی تیاری کریں۔ عمران نے الیکشن ٹربیونل کا سہارا لیا تو کوئی عدالتوں کا سہارا نہ لے اور عوامی عدالت میں جائے۔