90 سالہ محقق اقبالیات کے اعزاز میں
نوائے وقت قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے پروانوں میں بہت مقبول ہے۔ علامہ اقبالؒ کے ایک پروانے اور حال ہی میں علامہ اقبالؒ کے بارے تحقیقی اور تخلیقی خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے گولڈ میڈل اور سند اعزاز حاصل کرنے والے ممتاز ادیب جناب غلام صابر کو ڈنمارک میں سفارت خانے کی طرف سے منعقد بھرپور تقریب اور مجموعی کارکردگی پر اس خاکسار نے ایک کالم میں مختصر تذکرہ کیا تھا۔ بہت سے احباب حوالے سے تشنگی کا ذکر کیا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اس تقریب کے دو مقررین کے خطاب کے اقتباسات سے ممکن ہے حق بحق دار رسید کی کچھ صورت پیدا ہو جائے۔ سعدیہ معید جناب غلام صابر کی نواسی اور خود بھی دانشور ہیں۔ انہوں نے لندن سے ڈنمارک جا کر اس تقریب میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا: ”عام طور پر لوگ جب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ اپنی جوانی کے دور کی جدوجہد اور کامیابیوں کو یاد کر کے مطمئن رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے سات بچوں کو کامیابی سے روزگار پر لگایا اپنے 20 پوتے پوتیوں کو دیکھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد سوچتے ہیں کہ اب ان کے آرام کا وقت ہے۔ اب انہیں پاﺅں پسار کر آرام کرنا ہے اور یہ کہ اب دوسرے بھاگ دوڑ کریں۔ مگر میرے نانا ایسے نہیں ہیں۔ اپنی طویل بھرپور اور منفعت بخش زندگی کے دوران جس میں ایک پاکستانی انٹرنیشنل ائیر لائنز کی 34 سالہ سروس بھی شامل ہے۔ ہر منزل پر پہنچ کر انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی ریٹائرمنٹ ایک نئے مشن اور ایک نئے دور حیات کی صبح کا آغاز ہے جس کے نئے چیلنجوں کو قبول کرنا ہے۔ انہوں نے 60 سالہ زندگی کے بعد اپنی تعلیم کو نئے شعبوں میں جاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا اور پاکستان کے بعض مثالی اور نادار مگر ذہین بچوں کی تعلیمی سرپرستی کا مشن بھی اپنا لیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب انہوں نے علامہ اقبال کے حوالے سے تحقیقی مضامین لکھنے شروع کئے اور ان کی پہلی اردو زبان میں ”اقبال شاعر فردا“ کے عنوان سے کتاب شائع ہوئی۔ ان کی دوسری کتاب ”کرکیگارڈ اینڈ اقبال“ انگریزی زبان میں شائع ہوئی اور اتنی مقبول ہوئی کہ 2007ءمیں اسکا ڈینش زبان میں ترجمہ ہوا اور اب ڈنمارک کی ہر لائبریری میں موجود ہے۔ (اس کتاب کا ترجمہ فارسی اور دوسری زبانوں میں بھی ہوا) اس دوران انہوں نے علامہ اقبال اکیڈمی سکینڈے نیویا کی بنیاد رکھی جس کی سال میں دو بار کی تقریبات میں دنیا بھر سے مقرر شرکت کرتے ہیں.... ان تمام باتوں سے بڑھ کر ایک بات ایسی ہے جس نے مجھے نانا جان کا گرویدہ بنایا، یہ ہے کہ عمر کے اس حصہ میں انہوں نے (جو اپنے پیشے کے اعتبار سے کبھی ماہر طبیعات نہیں رہے) محض علامہ اقبال کی محبت میں، خلا، وقت، کائنات، نظریہ کمیت، کائنات، نظریہ افعافیت، کون و مکان اور فزکس کے دوسرے موضوعات کا باقاعدہ ایک طالب علم کے طور پر مطالعہ کیا اور اس کے بعد اپنی تیسری کتاب انگریزی میں ”اقبال، مذہب اور نئے دور کی فزکس“ لکھی جس میں شاعری، فلسفہ، آرٹس اور سائنس ایک ساتھ سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں.... مجھے نانا جان نے اس کتاب کا دیباچہ لکھنے کے لئے کہا تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ابا جان مجھے اس کتاب کا حصہ بنانے کا بہت شکریہ.... اس برس میرے نانا جان کی عمر 90 سال کو آ پہنچی ہے لیکن وہ تھکے اور رکے نہیں.... نانا ابو ہم سب پورا خاندان آپ کی اولاد ہونے پر نازاں ہے.... آپ کی تخلیقات صرف آپ کی کتابیں ہی نہیں بلکہ آپ کی پوری زندگی کے نقوش پا بھی ہیں جو ہم سب کے لئے قابل فخر ہیں۔
اس تقریب میں شمولیت کے بعد کوپن ہیگن ڈنمارک ٹی وی کے پروگرام ”باشی کارنر“ کے میزبان میڈیا واچ ڈنمارک کے چیف ایڈیٹر، انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائٹس ڈنمارک کے کونسل ممبر اور ایتھنک ڈی بیٹ ڈنمارک فورم کے چیئرمین باشی قریشی نے غلام صابر کے حوالے سے لکھا۔ شائع شدہ رپورٹ کے اقتباسات بھی دیکھئے۔
”یہ دیر تک یاد رہ جانے والی ایک شاندار تقریب کا تذکرہ ہے۔ سرکاری طور پر ڈنمارک میں 23000 پاکستانی مقیم ہیں۔ تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہاں سفارت خانوں اور ان کی کمیونٹی کے درمیان روابط ایک مسئلہ رہے ہیں۔ پاکستان کے سفارت خانے کی بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ البتہ جب سے پروفیشنل سفارت کار مسرور جونیجو ڈنمارک میں آئے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی اور سفارت خانے کے درمیان تعلقات کی صورت حال میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ مختصر عرصے میں انہوں نے پاکستانیوں کے مسائل حل کئے ہیں۔ سفارت خانے کے دروازے پبلک اجلاسوں کے لئے کھولے۔ خود عوامی تقریبات میں شرکت کی اور پاکستانی کمیونٹی کے نمائندوں کو خود دعوت دے کر تبادلہ خیال کیا اور سفارت خانے کا ماحول کاروباری کی بجائے گھریلو ہو گیا۔ ایسی ہی ایک بھرپور اور دل آویز تقریب میں شرکت کا موقع ملا جو تادیر یاد رہے گی.... قابل احترام سفیر نے اقبال اکیڈمی سکینڈے نیویا کے بانی چیئرمین غلام صابر کے اعزاز میں ایک مثالی تقریب کا اہتمام کیا اس تقریب کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ دوسرے مقررین کےساتھ ساتھ ان کی فیملی کے ارکان جن میں ان کے بچوں، دانش بہو نواسوں نے ان کی طرف سے دی گئی اچھی تربیت دانشورانہ رہنمائی کو بھی سراہا۔ یہ تقریب پاکستانیوں اور سفارت خانے کے درمیان بہترین روابط کے ساتھ ساتھ غلام صابر اور علامہ اقبال سے ان کی محبت کا بھی بہترین اظہار تھا۔