اک قومی ذمہ داری
تازہ بہ تازہ صورتحال یہ ہے کہ حلقہ 122 سے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی وکٹ گرنے سے مسلم لیگ (ن) کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ 154 حلقہ سے بھی صدیق خان بلوچ کی اسمبلی رکنیت منسوخ ہو گئی ہے۔ قبل ازیں سعد رفیق کے حلقے کے الیکشنز بھی کالعدم قرار پا گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے یہ حالات کوئی اچھے نہیں ہیں۔ بحرحال سیاست اسی کو کہتے ہیں۔ سیاست میں کوئی شئے اور کوئی حالات حتمی نہیں ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اس وقت سیاسی اُفق پر جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں‘ کیا وہ پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پر اچھے اثرات مرتب کر سکیں گی؟ کیا خان صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائیگا؟ کیا اس طرح بڑی جماعتوں کے مزید اہم لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہونے کیلئے پر تولیں گے؟ کسی ملک میں سیاست‘ سیاستدانوں کیلئے ہر پل نئی آزمائشوں کا پیش خیمہ ہی نہیں ہوتی بلکہ سیاسی حالات بذات خود سیاستدانوں کیلئے مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مثلاً خان صاحب کیلئے موجودہ حالات ذاتی عناد سے اجتناب کرکے اعلیٰ ظرفی کا درس لینے کا متقاضی ہے تو میاں صاحب کی مسلم لیگ کیلئے موجودہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں حوصلہ و سمت سے دوبارہ خم ٹھونک کے میدان جمہور میں الیکشنز میں بازی لے جانے کیلئے خود کو تیار کرنے کا عندیہ ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں برسراقتدار پارٹی کی تین وکٹیں گرنے سے وہ پست ہمت نہیں۔ اس نے تو سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کا سہارا لینے سے بھی گریز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ سعد رفیق کی قانونی چارہ جوئی کی درخواست واپس لینے کے ارادے کا اظہار کرکے عوامی عدالت میں پیش ہوکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی ٹھان لی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مطابق وہ مذکوہ حلقوں کے ضمنی الیکشن لڑیں گے اور اپنی ساکھ برقرار رکھیں گے کیونکہ الیکشنز کی بے ضابطگیوں کا مطلب بحرحال یہ نہیں کہ (ن) لیگ کے رہنماﺅں نے دھاندلی پلان کی تھی؟ مسلم لیگ (ن) کا اس موقع پر مثبت رویہ اس لئے بھی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے ٹربیونل کے فیصلے کو کسی بھی پلیٹ فارم پر ہدف تنقید نہیں بنایا بلکہ من و عن اسے تسلیم کیا۔ ادھر ٹربیونل کا فیصلہ آتے ہی الیکشن کمیشن نے ایاز صادق کو ڈی سیٹ کر لیا ہے۔
ہاں البتہ ایاز صادق صاحب کو اپنی سیاسی پوزیشن بلکہ سیاسی زندگی کو قائم رکھنے کیلئے یا تو قانونی راستے سے سرخرو ہونا پڑے گا یا پھر جماعت کو فیصلے کے مطابق ٹھیک ٹھاک طور سے پی ٹی آئی کے مدمقابل بیلٹ پیپر کی جنگ جیتنا ہوگی۔
ایاز صادق چونکہ ایک اہم اور ذمہ دار عہدے پہ اڑھائی سال تک متمکن رہے ہیں‘ اس لئے ڈی سیٹ ہو جانے کے بعد انکے تمام آفیشل فیصلے و اسمبلی کارروائیاں بھی معطل متصور کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن کی طرف سے بدمزگی پیدا ہونے سے بچنے کیلئے سسٹم کے زندہ رکھے کیلئے قانونی چارہ جوئی و قانونی ترمیم کی ضرورت رہے گی۔ سابق سپیکر کو آئندہ ضمنی انتخاب میں اپنی سیٹ کو واپس کریڈٹ کرکے اپنی جماعت کی پوزیشن و سسٹم کی بازیابی کا کام بھی کرنا ہوگا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی بحران کی صورت پیدا ہوچکی ہے مگر میں سمجھتی ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ یہ کس کا کریڈٹ ہے۔ بحرحال ملکی سیاسی اصلاحی عمل سے گزر رہی ہے۔ سیاست میں ضابطوں‘ دستور اور منظم سسٹم کی بالادستی ملکی بہتری کیلئے ازحد ضروری ہے۔ وطن عزیز میں ہمارے اداروں‘ قومی ترقی و استحکام کے میگا پراجیکٹس کی زبوں حالی سے عوامی سطح پر جو گزند ہمیں پہنچ چکے ہیں‘ یہ ہمارے سیاسی نظام کے غیر مربوط و جانبدارانہ کردار ہی سزاوار ہیں۔ اگر ماضی میں مادر ملت کو دھاندلی سے ہرایا نہ جاتا تو شاید آج بھی ہمارے نظام میں بے ضابطگیاں پیدا نہ ہو سکتیں۔ ہم دہشت گردی و کرپشن کے میدانوں میں دنیا کے صف اول کے ملکوں میں شمار نہ ہوتے اور دشمن ملک بھی ہماری بے ضابطگیوں و نااہلیوں و بے اعتنائیوں کا فائدہ نہ اٹھاتا۔ آج کرپٹ مافیا اور دہشت گردی کے بیج اکھاڑنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ قانون بڑی مچھلیوں کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ ”را“ اور ”موساد“ کے اندرون ملک کارکنان کی فہرستیں سامنے آچکی ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا پتہ چل چکا ہے۔ بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز کے سرپرست منکشف ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کا سوال ہے کہ کیا کرپشن و دہشت گردی صرف سندھ میں ہے تو جناب آپ بجا فرماتے ہیں کہ کرپشن نے پورے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں مگرآپ یہ بھی تو دیکھئے کہ یہ صرف سندھ ہے کہ جہاں دشمن اتنی دیدہ دلیری سے پشت و پناہ دینے میں مصروف تھے کہ وہ ماضی کے ملک کے دولخت ہونےوالے سانحے کو دہرانے کے درپے ہوگئے تھے اس لئے سندھ ہی کو پہلے آپریشن کلین اپ کا سامنا کرنا پڑے گا جو 1980ءکی دہائی سے لگاتار مسلسل فساد کراچی میں برپا ہے۔ اسکی مثال پورے ملک میں نہیں ملتی۔ جو قتل عام سندھ میں جاری ہوا‘ وہ اپنی نوعیت میں ایسا شدید ہے کہ اسکی سنگینی کا اندازہ لگانا محال ہے۔ ابھی ایک بار پھر ملکی سیاسی اعلیٰ قیادت‘ ایم کیو ایم اور دیگر قوتیں آپریشن کلین اپ اور دہشتگردی کیخلاف جاری آپریشن کے روکنے کی مفاہمتوں کے قریب آئے تو آرمی چیف کو اعلان کرنا پڑا کہ سندھ کے امن اور بہتری کیلئے آپریشن کلین آپ بلا تفریق کرنا پڑیگا جوکہ جاری رہے گا۔ آرمی چیف کےمطابق ملک میں آپریشن ضرب عضب اور آپریشن کلین جس جگہ اور جس مقام پر بھی فوری ضروری ہوگا‘ غیرجانبدارانہ کیا جائیگا اور ایسا کرنے کا فائدہ خود سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کو ہی ہوگا۔
اس وقت حالات کا تقاضا ہے کہ ہماری عسکری و سیاسی قیادت اندرون ملک کرپشن و دہشت گردی سے پاک وطن کے خواب کو پورا کرنے کیلئے ایک پیج پر رہیں کیونکہ ہمارا مقصد صرف امن کی بحالی ہی نہیں بلکہ تکمیل پاکستان کے مقصد کا حصول بھی ہے۔ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے خواب کو بھی شرمندہ¿ تعبیر کرنا ہے اور یہ بات ہماری عسکری قیادت کا موٹو بھی ہے۔
ملک کے سیاسی نظام کی درستگی و ضابطوں کی پابندی انتظامیہ‘ عدلیہ اور عوام بلکہ من حیث المجموعی پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔