وزیر اعظم اور آرمی چیف کی خدمت میں
پاکستان میں حالات کی اصلاح احوال کیلئے جاری ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ اگر اس میں ذرہ بھر بھی عزم اور غضب کی کمی ہوئی تو سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائیگا اور آئندہ آنیوالی نسلیں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کو اس کا مورد الزام ٹھہرائیں گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمارا وطن گزشتہ کئی عشروں سے جس دہشت گردی اور کرپشن کا شکار ہے اسے دور کرنے کیلئے پہلی بارسنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
دہشت گردی اور کرپشن کو ختم کرنے کے اس مرحلے میں اب"بڑی مچھلیوں" پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے اور یہی مرحلہ انتہائی اہم ہے۔ مثال ہے کہ "جب درخت گرتا ہے تو شاخیں ٹوٹ جاتیں ہیں" اسی کے مصداق اگر دہشتگردی، انتہاپسندی ، فرقہ واریت، بد عنوانی اور اخلاقی بے راہ روی پھیلانے والوں اور غیر ملکی دشمنوں کو پناہ دینے والے "ہول سیل ڈیلرز" پر اگرصحیح ہاتھ پڑ گیا تو اصلاح و احوال کی منزل حاصل کرنا مشکل نہ ہو گا۔
اس منزل کو پانے میں اس و قت دو شخصیات کلید ی حیثیت کی حامل ہیں اور وہ ہیں نواز شریف اور راحیل شریف۔ نواز شریف دو بار وزیرا عظم رہ چکے ہیں اور راحیل شریف کے گھر میں پہلے ہی دو نشان حیدر ہیں۔ اس پس منظر میں ان دونوں کے دلوں میں اقتدار اور ذاتی منفعت کو ترجیحاً ہم سب سے آگے نہیں ہونا چاہیے۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر ان دونوں مقتدر شخصیات کی منزل ِمراد پاکستان کی اصلاح احوال ہے تو یقینا انہیں تاریخی کامیابی حاصل ہو گی۔ وہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں قائداعظم ؒاور اقبالؒ کی طرح زندہ رہیں گے لیکن اگر ان دونوں کی ترجیحات یکساں نہ ہوئیں تو خاکم بدہن پاکستان کے وفاق اور اتحاد و استحکام کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ اس کی تلافی شاید ممکن نہ ہو۔ ہر ذی شعور پاکستان سمجھتا ہے کہ پاکستان کی بقاءاور عوام کے خوشحال مستقبل کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان دونوں کے ہاتھ دی ہوئی ہے۔ نواز شریف صاحب اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنرل راحیل شریف کے ہاتھوں میں ہاتھ دینا ہے اور جنرل راحیل شریف کو بھی ہر دل عزیز سیاستدان بننے کی بجائے ایسا کمانڈر بننا ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں انہیں رول ماڈل بنائیں۔ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبالؒ کے بعد ابھی تک کوئی حکمران عوام کے دلوں میں حب الوطنی اور رول ماڈل کی حیثیت حاصل نہ کر سکا ہے۔ تاریخ یہ عظیم موقع دونوں شریفوں کو دے رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر دونوں کے دل اور دماغ میں پاکستانیت کی اولیت کو سمو دیں تو انشاءاللہ وہ منزل دور نہیں جس کی خواہش ہر پاکستانی کو ہے ۔ پاکستانی قوم کو اس وقت چو مکھی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ ایک طرف ضرب عضب دہشت گردی کیخلاف ہے ، دوسری طرف قومی ایکشن پلان ملک سے کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کیلئے کوشاں ہے تو تیسری طرف نوزائیدہ جمہوریت اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور چوتھی طرف پاکستان کا ازلی دشمن بھارت سرحدوں پر دباﺅ پڑھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بد امنی اور دہشت گردی کی فضا کو ہوا دے رہا ہے۔جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ ”ہم پاکستان کے بہت سے حصوں میں بھارت کی طرف سے پھیلائی جانیوالے دہشت گردی اور ورکنگ باو¿نڈری، ایل او سی پر شروع کی گئی جنگ کے درمیان یقینی ربط کو محسوس کر سکتے ہیں۔“ بھارت نے گزشتہ دو ماہ میں ستّر سے زائد مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔اس تمام تر پس منظرمیں وزیر اعظم اور آرمی چیف کا ایک لائن پر ہونا ضروری ہے۔ اب تک کے واقعات تو یہی شہادت دیتے ہیں کہ اس بار آرمی، اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی ٹیم باہم مل کر چل رہے ہیں۔
میری وفاقی حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ "آگے دوڑ اور پیچھے چوڑ"کے مقولے پر بھی نظر رکھے۔ جس طرح کراچی میں لینڈ مافیا اور کرپشن کےخلاف اقدامات کئے جا رہے ہیں اسی طرح اسلام آباداور راولپنڈی میں بھی اس مافیا پر نظر رکھی جائے۔ یہ مافیا ریاستی اور حکومتی اداروں کی آشیرباد کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتے۔ اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ CDA اور راولپنڈی کی انتظامیہ نے جس طرح ان جڑواں شہروں کے مضافات میں غیر قانونی بستیوں اور ہاوسنگ سوسائٹیوں کے نام پر سرکاری زمینوں پر نا جائز قابضین کو تحفظ دے رکھا ہے اس جانب بھی ایکشن کی ضرورت ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب یہ علاقے کراچی کی طرح جرائم کا گڑھ ہی نہیں بلکہ ملکی سلامتی کیخلاف استعمال ہونیوالے اڈے بن جائینگے۔ اس سلسلے میں بھارہ کہو اور ملحقہ شاہ پورکا علاقہ تو پہلے ہی کراچی کی طرح کی وارداتوں کا مرکز بن چکا ہے۔ غیر قانونی آبادیاں، سوسائٹیاں اور کچی بستیاں تو اپنی جگہ، صورتحال تو یہ ہے کہ سی ڈی اے اسلام آباد کے مرکزی سیکٹر G-12 کو گزشتہ بیس سال سے خالی نہیں کروا سکی،اسکے علاوہ E-12اور G-14کے ناجائز قابضین سے بھی سی ڈی اے اپنی زمین واگزار نہیں کروا سکی۔ ان قیمتی سرکاری زمینوں کو خالی نہ کرانے میں لینڈ مافیا، با اثر سیاسی شخصیات اور سی ڈی اے کے افسران نے مشترکہ مفادات کی بناءپر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
عوام توقع کرتے ہیں کہ جس طرح کراچی میں کے ڈی اے اور دوسرے اداروں کے افسران اور متعلقہ سیاسی افراد کیخلاف کارروائی کی گئی اس طرح سی ڈی اے کے افسران اورمتعلقہ سیاسی افراد کےخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔