• news
  • image

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں اور مرحوم بٹ صاحب

جب بھی کسی کی ماں فوت ہوتی ہے تو ایک طرح جذبات ہوتے ہیں۔ باپ کے لیے بھی ایک جیسی باتیں زبان پر آتی ہیں مگر برادرم توفیق بٹ کے ابا جی زندہ تھے تو مختلف والد تھے۔ دنیا سے چپ چاپ چلے گئے تو بھی انوکھے ہی لگے۔ میرا بہت تعلق توفیق بٹ اور ان کے گھرانے سے ہے مگر آج تک مجھے ان کے والد صاحب کا نام معلوم نہیں ہے۔ ان کے گھر آنا جانا لگا رہتا ہے مگر ان سے کبھی بات نہ ہوئی۔ ان سے گفتگو کے لیے کبھی خیال بھی نہ آیا۔ وہ اتنے خاموش طبع تھے کہ کوئی دوسری مثال میرے پاس نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ خاموشی کی زبان ہوتی ہے مگر اس خاموشی کی کوئی زبان نہ تھی۔ وہ توفیق سے بہت پیار کرتے تھے۔ نعمان سے بھی پیار کرتے تھے۔ دونوں کو پتہ نہ چلنے دیا کہ کس سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی زبان سے اس جذبے کا اظہار بھی نہ کیا۔ میں وہاں جاتا تو میری طرف دیکھتے تھے۔ اس میں ایسی اپنائیت ہوتی کہ وہاں ہر شے اپنی اپنی لگنے لگتی تھی۔
میرا زیادہ تعلق توفیق کی ماں سے تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹی ہوں گی۔ مگر میں انہیں ماں جی کہتا تھا۔ میرے بچے جاتے تو وہ شور کر دیتیں کہ میرے پوتے پوتیاں آئے ان کے لئے کچھ لاﺅ۔ مجھ سے کسی بات پر توفیق خفا ہو گیا تو انہوں نے توفیق سے بات کرنا چھوڑ دی۔ توفیق میرے پاس آ گیا کہ اسے اپنی ماں سے محبت تھی۔ شاید وہی محبت جو ماں کو اس کے ساتھ تھی مگر میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ مائیں سانجھی ہوتی ہیں۔ وہ بیٹوں اور ان کے دوستوں کو بھی بیٹا سمجھتی ہیں اور ان کے درمیان تعلقات کو بحال رکھتی ہیں۔
اپنے دکھ تو صرف ماں کے سامنے بیان کئے جا سکتے ہیں۔ باپ جتنا بھی ہو جائے اس کے ساتھ خاص دکھ شیئر نہیں کیے جا سکتے۔ مگر لگتا تھا کہ مرحوم بٹ صاحب بچوں کے دکھ سمجھتے ہیں مگر انہوں نے اسے بیان کبھی نہیں کیا۔ وہ سب کچھ اپنے دل میں لے کر قبر میں اتر گئے۔ ان کے قلب اور قبر میں کچھ فرق نہ تھا۔ قلبی دنیاﺅں کی تنہائیوں کی انتہا ہے۔ وہ تنہا تھے اس لیے سب کے ساتھ تھے۔ انہوں نے کبھی کسی سے کوئی بات نہ کی۔ مگر سب گھر والے ان سے پیار کرتے تھے۔ میری بیٹی فوزیہ شازیہ نعمان توفیق اور ان کے بچے بھی ان سے خاص تعلق رکھتے تھے۔
ایک بات مجھے توفیق کی اچھی لگی کہ جب بھی اس سے کوئی بچہ کسی چیز کی فرمائش کرتا تو وہ کہتا کہ جاﺅ اپنے دادا جی سے کہو وہ مجھ سے بات کریں۔ اس طرح وہ اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق والد صاحب سے جوڑتا تھا۔ مجھے اپنے پوتا پوتی تنگ کرتی ہے تو میں ان کی ماں کو آواز دیتا ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ آپ خود ان کو منع کر دیں تو میں کہتا ہوں کہ انہیں عمر بھر یاد رہے گا کہ دادا نے ہمیں کبھی نہ ڈانٹا تھا نہ کچھ کہا تھا۔
مرحوم بٹ صاحب کی موجودگی اور عدم موجودگی میں کچھ فرق نہ تھا پھر بھی ان کے ہونے کی آسودگی دل میں محسوس ہوتی ہیں۔ آخری لمحے تک ان سے پوچھا جاتا کہ کیا حال ہے؟ تو وہ کہتے کہ شکر ہے اللہ کا برادرم ڈاکٹر عامر عزیز آخری لمحے تک ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ شاید ان سے کوئی بات مرحوم بٹ صاحب نے کی ہو مگر وہ بتائیں گے نہیں؟ جبکہ انہیں بٹ صاحب نے نہ کہا ہو کہ کسی کو بتانا نہیں۔
ہم برادرم شاہد رشید کی قیادت میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ساری ٹیم کے ساتھ بابا بلھے شاہ کے عرس پر گئے۔ 250 برس سے زیادہ گزر گئے۔ وہ شخص اپنے لوگوں کے قلب میں زندہ ہے جو قلب میں زندہ ہوتا وہ قبر میں بھی زندہ ہوتا ہے۔
باہو ایتھے اوہو جیندے قبر جنہاں دی جیوے ہو
ان مرنے والوں کا قلب زندہ تھا۔ ان کی قبر بھی زندہ ہے۔ ان کی محفل بھی آباد تھی۔ ان کا مرقد بھی آباد ہے۔ صوفی لوگوں نے دین و دنیا کو رلا ملا دیا۔ سب سے بہترین دعا ہے کہ اللہ ہماری دنیا بھی سوہنی بنا اور ہماری آخرت بھی اچھی کر دے۔ کہا گیا کہ جو دنیا میں اچھا نہیں ہے۔ وہ آخرت میں بھی اچھا نہیں ہو سکتا۔ جس کی دنیا اچھی نہیں ہے اس کی آخرت بھی اچھی نہ ہو گی۔ میرے آقا و مولا محسن انسانیت رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمدﷺصرف آخرت میںجنت کا وعدہ لے کے نہیں آئے تھے وہ دنیا کو بھی جنت بنانے آئے تھے۔ اور انہوں نے یہ جنت بنا کے دکھا دی۔ عہد نبوی سے بہتر زمانہ دنیا میں کبھی نہ آیا نہ آئے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ تم میں وہ اچھا جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا۔ وطن بھی گھر ہے۔ ان سے اچھا گھر بنانے کے لئے ہم سب اچھے ہو جائیں۔ جو اچھا ہے اسے اچھا کہنے کی عادت ڈالیں۔ جو اچھا لگتا ہے، جو اچھا ہے اسے کہیں کہ تم اچھے ہو تم اچھے لگتے ہو تو خدا کی قسم یہ دنیا اچھوں سے بھر جائے۔ کوئی برا بھی ہو تو اسے برا نہیں کہنا چاہئے۔ یہ کہہ لو کہ وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔
بابا بلھے شاہ کے مزار کے آس پاس ایک میلہ سا لگا ہوا تھا۔ لوگ دھمال ڈال رہے تھے۔ رقص کی بے ساختگی نے ہم پر بھی اثر کیا۔ برادرم شاہد رشید ناہید، عمران عباس، عابد حسین شاہ، معاذ اکرام، سیف اللہ چودھری سہیل ملک، عثمان احمد اور میں نے بھی دھمال ڈالنا شروع کر دی۔ میں تو پٹھان ہوں۔ دو پٹھان آپس میں دوست تھے۔ پھر کوئی ناراضگی ہو گئی تو ایک دوست نے بیٹے کی شادی پر اپنے دوست کو نہ بلایا۔ پٹھان دوستی اور دشمنی دونوں میں انتہا پسند ہوتے ہیں۔ دونوں پٹھانوں کے گھر پاس پاس تھے۔ جب ڈھول بجنے لگا تو ناراض پٹھان اپنے گھر میں ناچنے لگا کہ تم مجھے اپنے بیٹے کی شادی میں نہ بلاﺅ مگر مجھے ناچنے سے تو نہیں روک سکتے۔
وہاں ہم نے قوالی سنی۔ قوالی بندے کو اپنے یار کے سامنے سوالی بنا دیتی ہے۔ انہوں نے گھنگھرو باندھے ہوئے تھے اور ایک مستی ان کے خود پر چھائی ہوئی تھی۔ ایک بہت چھوٹی سی بچی بڑے والہانہ پن سے ناچ رہی تھی۔ اس کے سر پر چار پانچ گلاس پانی سے لبالب بھرے ہوئے دھرے تھے۔ مجال ہے کہ ایک قطرہ پانی کا نیچے گرے۔ بھولپن کا بانکپن اس کی آنکھوں میں تھا۔ اتنی بے ساختگی اور معصومیت سے کوئی بڑی بھی ناچے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اعتراض کرنا چھوڑ ہی دینا چاہیے۔ اور کسی کو اچھی زندگی گزارنے کا موقع دینا چاہئے۔ ہماری بہت ممتاز اور معزز شاعرہ فہمیدہ کوثر کے دو اشعار دیکھیں اچھی شاعرہ کا دل بھی زندگی کے حسن و جمال اور آسودگی کے لئے صوفیوں کے دل کی طرح دھڑکتا ہے۔
مسئلہ زیست کو آﺅ گھمبیر کر دیں
اس طرح دکھ کو بھی پایہ زنجیر کر دیں
سیپ کے دل میں موتی ہیں دکھ ہیں کہ کیا ہیں
آﺅ مل کر سمندر کو تسخیر کر دیں

epaper

ای پیپر-دی نیشن