میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
سارا قصہ صرف اتنا سا ہے کہ میں ’الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا‘۔ ن لیگ والے کتنے جمہوری لب و لہجے میں بات کا آغاز کرتے ”جناب! یہ الیکشن ٹربیونل آخر کس لئے ہیں۔ اگر آپ کو الیکشن کمشن سے کوئی شکایت ہے تو کھیلنا سیکھئے۔ درست فورم اختیار کیجئے۔ یہ دھرنے شرنے سب غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں۔ جمہوریت چلنے دیجئے۔ گاڑی چلتی نہیں اور گر جاتا ہے پہلے سگنل‘۔ پھر آخر گاڑی چلے بھی تو کیسے چلے“۔ ادھر عمران خان بہت کچھ جانتے بوجھتے تھے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہیں مقتدر حلقوں نے سب کچھ بتا دیا ہو گا۔ اسی لئے وہ صرف چار حلقوں کی بات کرتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آپ ان چار حلقوں کو دوبارہ گنتی کیلئے کھول لیں‘ سب کچھ کھل جائے گا۔ ان چار حلقوں میں سے دو حلقے شہر لاہور سے ہیں۔ شہر لاہور جسے ن لیگ اپنا قلعہ سمجھے بیٹھی ہے۔ ان لاہوری حلقوں کے ذکر سے ن لیگ کی جان جاتی تھی۔ وہ یہاں کسی رسک کے متحمل نہیں تھے۔ ایک حلقہ لودھراں سے جہانگیر ترین کا تھا۔ جسٹس وجیہہ الدین بیچارے کیا جانیں۔ انہیں صرف جہانگیر ترین کا جہاز دکھائی دیتا ہے‘ جو کسی طلسمی اڑن کھٹولے کی طرح جدھر خاں صاحب چاہتے ہیں لئے اڑتا ہے۔ کیا بھولپن سے جسٹس صاحب کہہ رہے ہیں ’خاں صاحب! انہیں پارٹی سے نکال دیجئے۔ عمران خان اس پر بس مسکرا ہی سکتے ہیں‘ سو وہ مسکرا رہے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ جماعتیں نہیں چل سکتیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے بغیر جماعتیں نہیں چل سکتیں۔ جہانگیر ترین جمال دین والی کے مخدوم محمد احمد کے بزنس پارٹنر تھے۔ ان میں قریبی رشتہ داری بھی ہے۔ کاروبار تقسیم کرنے کے لمحہ جہانگیر ترین کو پتہ چلا کہ سیاسی طاقت کس طاقت کا نام ہے۔ ہمارے ہاں مقدمہ بازی میں کائیاں لوگ خوب جانتے ہیں کہ کچہری میں وکیل کرنے کی بجائے جج کر لینا زیادہ سود مند رہتا ہے۔ سو جہانگیر ترین نے یہی بات پلے باندھی اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لئے ایک سیاسی جماعت کر لی ہے۔ سو اب وہ مخدوم محمد احمد سے کسی طرح کم طاقتور نہیں۔ بااصول‘ دیانتدار جسٹس وجیہہ الدین کتنے بھولے بادشاہ ہیں جو اپنی سائیکل سے ایک ٹرک کو سائیڈ مار کر گرانا چاہتے ہیں۔ اب وہ ہمارے سمجھانے سے تو باز آنے سے رہے‘ سو وہ اپنا شوق پورا کر دیکھیں۔ چوتھا حلقہ سیالکوٹ شہر سے ہے۔ شہر اقبال سیالکوٹ میں امتیاز الدین ڈار نام کے ایک رئیس بستے تھے۔ متمول صنعتکار تھے۔ صرف مال منال ہی نہیں‘ کثرت سے حضرت قائداعظم سے محبت اور پاکستان کا درد بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے سیالکوٹ میں اپنے گھر سے بڑا‘ اپنے گھر کے قریب ایک جناح ہا¶س بنایا۔ پھر اس کی تمام دیواروں کو حضرت قائداعظم کی نادر و نایاب تصاویر سے سجا لیا۔ ہمیں بھی جناح ہا¶س کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہے۔ اب امتیاز الدین ڈار اپنے اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ اللہ ان کے مرتبے بلند فرمائے۔ ان کی یادوں سے معطر جناح ہا¶س ان کے جواں سال بیٹوں نے آباد کر رکھا ہے۔ شاید ان کے بیٹے تعداد میں زیادہ ہوں‘ ہم صرف دو کے بارے جانتے ہیں۔ عثمان ڈار‘ خواجہ آصف کے مقابلہ میں تحریک انصاف کے امیدوار تھے۔ خوب مقابلہ کیا۔ بس کامیابی کیلئے ایک آنچ کسر رہ گئی۔ ان کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔ ان کے دوسرے بھائی عمر ڈار ہیں۔ آپ عمران خان کی کوئی تقریر کرتے ہوئے تصویر نکالیں۔ پس منظر میں یہی خوبصورت اونچے قد کاٹھ کے عمر ڈار مسکراتے ہوئے ضرور نظر آجائیں گے۔ NA-125 کا فیصلہ آیا؟ حامد خان کی اپیل الیکشن ٹربیونل سے منظور کرکے دوبارہ الیکشن کا حکم دیدیا۔ خواجہ سعد رفیق سپریم کورٹ سے سٹے آرڈر لے کر آئے ہیں۔ ادھر سٹے آرڈر بڑی پائیدار شے ہے۔ یہ برسوں کارآمد رہتی ہے۔ اب آتا ہے لاہور سے قومی اسمبلی کا دوسرا حلقہ NA-122 یہاں بھی ملک کاظم نے دوبارہ الیکشن کا حکم سنا دیا ہے۔ ہمارا ملک معاشی طبقات‘ برادری ازم اور فرقہ واریت کے خانوں میں بٹا ہوا ہے۔ پھر فرقہ وارانہ عصبیت اتنی شدید ہے کہ ....
مسلک پتہ چلا جو مسافر کی لاش کا
چپ چاپ آدھی بھیڑ گھروں کو چلی گئی
ہر فرقہ صرف اپنے فرقے کو ہی سچا مسلمان سمجھتا ہے۔ وہ دوسرے فرقوں کا لٹریچر پڑھنے کا بھی روادار نہیں۔ ہم دوسرے فرقوں کے مسلمانوں کو اتنا ہی مسلمان سمجھتے ہیں جتنا فرقہ واریت کا شدید موسم ہمیں اجازت بخشتا ہے۔ کاظم علی ملک نے NA-122 کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کیلئے الیکشن ریکارڈ کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے سے پہلے اپنے ضمیر سے چھ سوال کئے۔ اس مقدمے کا فیصلہ لکھتے ہوئے کاظم علی ملک نے اپنے سامنے یقیناً نہج البلاغہ کی جلد دھری ہوگی۔ یہ چھ سوالات کئی روز سے خبروں، ٹاک شوز اور کالموں میں سنائی اور دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لئے اس کالم میں انہیں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کاظم ملک سیشن جج بھی رہے ہیں اور کوئی ایک آدھ برس ہائیکورٹ کے جج بھی۔ ان سے ساتواں سوال یوں پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا انہیں اپنے ضمیر سے یہ چھ سوال پوچھنے کی پہلی مرتبہ ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ کہیں وہ اپنے ضمیر سے لمبی بازپرس کرنے سے پہلے ہی فیصلہ کر تو نہیں چکے تھے۔ پھر ایک بات اور بھی بڑی اہم ہے۔ مہذب ملکوں میں جج نہیں بولتے صرف ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ ادھر ہمارے جج اتنے ”مہذب“ ہو چکے ہیں کہ وہ خود ٹی وی پر فرفر بولتے ہیں۔ کیا آپ نے ٹی وی پر کاظم ملک کو اپنے فیصلے پر وضاحت در وضاحت کرتے نہیں دیکھا؟ خیر چار حلقوں کے فیصلے ہو چکے ہیں تین حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروانے کے احکامات ہیں۔ دو حلقوں کے کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ دو حلقوں میں غالباً (ن) لیگ سپریم کورٹ نہیں جا رہی۔ ان کا ضمنی الیکشن لڑنے کا پروگرام بن چکا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے اکھاڑے کے پہلوانوں کا سا وطیرہ اور انداز اپنا رکھا ہے۔ ”اپنے بڑے پہلوانوں کو نکالو پھر ادھر سے بھی بڑا پہلوان آئے گا۔“ یہ ہمارے عمران خان صاحب ہیں جو NA-122 میں میاں نوازشریف کو الیکشن لڑنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ کیا خرافات ہے؟ کبھی سیاسی جماعتوں کے منشور بھی کوئی چیز ہوا کرتے تھے۔ اب کہیں بھولے سے بھی اس کا ذکر سننے میں نہیں آ رہا۔ اب تک تحریک انصاف کے الیکشن دھاندلی کے خلاف احتجاج کو پاک چین راہداری، اقتصادی منصوبوں اور چینی صدر کے دورے کے التواءپر مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ عمران خان کے چار حلقوں کے کھولنے کے مطالبے کی عدالتی پذیرائی پر ہر ذہن یہ ضرور سوچتا ہے۔ کیا (ن) لیگ دو برس پہلے یہ چار حلقے نہیں کھول سکتی تھی؟ اس طرح یہ سارا ”کھپ رولا“ نہ ہوتا۔ پھر تو جمہوریت کی گاڑی فراٹے بھرتی کسی چھوٹے موٹے ”ٹیشن“ پر رکے بغیر بس چلتی ہی رہتی۔ ”میں الزام ان کو دیتا تھا‘ قصور اپنا نکل آیا۔“