قومی زبان ڈاکٹر غضنفر آغا اپنے دیس میں رسوا
آج کل وطن عزیز کی فضا عجب سی دکھائی دیتی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر دو چیف متحرک اور فعال نظر آتے ہیں۔ ہر جانب آرمی چیف اور چیف جسٹس پاکستان کے اقدامات کے چرچے اور غلغلے سنائی دیتے ہیں۔ جناب چیف ایگزیکٹو کے بیرونی دوروں کی آنیوں جانیوں میں کوئی متاثر کن پہلو ہے نہ ثمر خیزی ملتی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ امور خارجہ اور داخلہ کی ڈوریاں تو جناب نواز شریف کی بجائے باوردی شریف کی انگلیوں میں محسوس ہوتی ہیں۔ جنرل راحیل شریف دہشت گردی کے خلاف جس جرات و استقلال کے ساتھ جستجو کر رہے ہیں پاکستانی قوم ہی نہیں پوری دنیا اس کی پذیرائی پر مجبور ہے۔ کراچی سمیت پورے ملک میں ہونے والی کرپشن بے ضابطگیاں اور قومی خزانے کو لوٹنے والوں کے خلاف آرمی چیف کے خدمات و جذبات کو پوری قوم قدر کی نظر سے دیکھتی ہے۔ دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف قومی زبان میں اٹھا کر جناب جواد ایس خواجہ نے قومی زندگی کا رخ ایک بار پھر تحریک پاکستان کی جانب موڑ دیا۔ ساتھ ہی چیف جسٹس کے متعین شدہ پروٹوکول اور مراعات کو دھتکار کر ایک جانب جسٹس کارنیلس کے شاگرد رشید ہونے کا حق ادا کیا تو دوسری جانب ملک کی افسر شاہی سیاسی قیادتوں اور اشرافیہ کے لئے آپ کا فیصلہ ایک سمت نما کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ منظر دیدنی تھا جب جناب چیف جسٹس کے حلف برداری کی تقریب اپنی قومی زبان میں ہو رہی تھی۔ بعدازاں چیف جسٹس کے چیمبر رہائش گاہ، گارڈ اور گاڑیوں سمیت ہر آسائشی سہولتوں کو واپس بھیج کر عدلیہ کی تاریخ کا نیا باب رقم کیا جس سے قوم نے امید اور حقیقی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وطن عزیز کی ہر گلی اور بازار میں عام شہری ادنیٰ آدمی جناب جواد ایس خواجہ کو احترام اور تحسین کے کلمات سے نواز رہا تھا۔ بلاشبہ آپ نے ہر قومی مسئلے پر بے باک اور ٹھوس موقف کے ساتھ عوامی امنگوں کی ترجمانی کے فرائض انجام دیے۔ آپ نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا مگر قومی وقار اور ملی اقدار کی ترجمان و پاسبان ہونے کا ثبوت دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے جنوری 2015میں از خود نوٹس لیتے ہوئے قومی زبان کو آئین پاکستان کی شق 251کو فعال کرنے اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو نہ صرف دور کرنے بلکہ مجرمانہ غفلت برتنے والی افسرشاہی کے احتساب پر مبنی ارادوں کا اظہار کرتے رہے۔ جس کے بعدوطن عزیز کی ایک خاموش اکثریت آپ کی ذات سے امیدیں باندھے تاریخی فیصلے کی منتظر ہے۔ تاریخ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ جس اردو زبان نے مسلمانان برصغیر کی آواز بن کے پاکستان کا مقدمہ لڑا آج اس اردو کی بحالی کا مقدمہ عدالت عظمیٰ پاکستان میں زیر سماعت ہے۔ اردو کا طرہ امتیاز ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ اپنے اندر نئے الفاظ سمولینے کی گنجائش رکھتی ہے۔ جس ماحول میں یہ زبان بولی جاتی ہے وہاں اپنی جگہ بڑی آسانی اور خوبصورتی سے بنا لیتی ہے۔ لاہور ہو یا کراچی، پشاور ہو کہ کوئٹہ ہر موسم ہر معاشرے کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ ہر لہجہ ہر طرز تکلم میں واضح شائستگی اور حسن محسوس ہوتا ہے۔
امریکہ برطانیہ ہی دنیا نہیں جاپان، فرانس، جرمن، چین، سوویت یونین اور عرب بھی دنیا کا حصہ ہیں۔ یہ تمام معاملات اپنی اپنی زبان میں انجام دیتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں نفاذ اردو کے حوالے سے صورتحال کافی اطمینان بخش ہے۔ چیف جسٹس اپنے ساتھیوں سمیت تمام قومی امور میں جرات کا مظاہرہ کتے ہوئے آئین پاکستان کی روح کو بحال کرنے کے عظیم مشن پر گامزن ہیں۔ وہ بڑے انہماک کے ساتھ قومی زبان رائج کرنے کےلئے اشرافیہ کی ناراضگی کی پروا کئے بغیر سخت لہجہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے مگر دوسری جانب حکومت پنجاب نے عدالت عظمیٰ کی ساری کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں کو نہ صرف مغرب زدہ این جی اوز کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کے نصاب تبدیل کرنے کا اختیار غیر نظریاتی طبقے کے سپرد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ کے یورپی مشیران غیر ملکی این جی اوز ورلڈ بینک سمیت دوسرے اداروں کے مندوبین شامل تھے۔ انہی دنوں ایچی سن کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر غضنفر آغا کو ان کی غیر موجودگی میں سازش کے تحت الگ کر دیا گیا۔ جناب پروفیسر غضنفر آغا جیسی محب وطن شخصیت جب واپس وطن لوٹے تو لاہور ہائی کورٹ سے حکم نامہ لے کر کالج داخل ہونا چاہتے تھے تو اشرافیہ کے اشارے پر انہی کے کالج میں انہیں داخل نہیں ہونے دیا ۔ ایک استاد کے ساتھ اتنا ہتک آمیز سلوک ہمارے قومی تشخص کو مجروح کرتا ہے۔ پاکستان قومی زبان تحریک نے اپنے اجلاس میں ڈاکٹر غضنفر کی تضحیک اور عدالت عالیہ لاہور کے حکم نامے کی توہین پر سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں ملوث پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کرکے کڑی سزا دی جائے۔ اجلاس میں ڈاکٹر غضنفر آغا کی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے وقار اور مقام کی بحالی کے لئے بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ عجب تماشا ہے قومی زبان اور ڈاکٹر غضنفر آغا اپنے ہی وطن میں رسوا ہو رہے ہیں۔ اجلاس میں جنرل حمید گل کی رحلت کو قومی نقصان قرار دیا۔ نفاذ اردو کےلئے حکومت کی بنائی ہوئی کمیٹی کو چیف جسٹس نے مسترد کر دیا۔ قومی زبان تحریک کا مطالبہ ہے کہ اس کمیٹی میں افسر شاہی کی بجائے قومی فکر کے افراد کو شامل کیا جائے جن میں اوریا مقبول جان، پروفیسر خواجہ زکریا، ڈاکٹر غضنفر آغا، حفیظ اللہ نیازی اور ڈاکٹر اجمل نیازی کے علاوہ پاکستان قومی زبان تحریک کے ارکان پروفیسر سلیم ہاشمی، محترمہ قمر فاطمہ اور تاثیر مصطفی کو شامل کیا جائے۔ یاد رہے پاکستان قومی زبان تحریک 6 ستمبر بروز اتوار الحمراءہال نمبر 2 میں نفاذ اردو، دفاع پاکستان کانفرنس منعقد کی ہے۔ تمام وطن دوست اور نظریہ پاکستان کے عشاق کو دعوت عام ہے۔