ایان علی کے بعد ڈاکٹر عاصم کی وعدہ معاف گواہیاں
خوبرو سمگلر اور منی لانڈرنگ ماڈل ایان علی کے بعد سب سے زیادہ شہرت اور ”زرداری“ پارٹی کی محبت ”صدر“ زرداری کے قریب بلکہ عنقریب ”خاص“ دوست ڈاکٹر عاصم کو حاصل ہوئی ہے۔ رحمان ملک شیری رحمان خورشید شاہ قمر الزمان کائرہ اور آصفہ بھٹو زرداری کو مبارکباد ہو کہ ڈاکٹر صاحب وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ ڈاکٹر عاصم ڈاکٹر قیوم سومرو کی طرح زرداری صاحب کے معالج بھی رہے ہیں۔ عاصم صاحب جیل کے باہر اور سومرو جیل کے اندر ”خدمات“ سرانجام دیتے رہے ہیں۔ زرداری صاحب کو جیل سے ہسپتال منتقل کرنے کی کوشش بھی ڈاکٹر سومرو نے کی تھیں۔ سنا ہے بیمار قیدی کے لیے کمرے میں ایک مشہور اداکارہ نرس کی وردی پہن کر رات بھر زرداری صاحب کی تیمار داری کرتی تھی۔
”ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے لیے چھاپے پر پارٹی میں بڑی کھلبلی مچی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سیاست کے پیرمغاں قائم مقام علی شاہ اتنے غصے میں کبھی نہیں آئے۔ انہوں نے کہا ”یہ ریاست ہے یا یہاں جنگل کا قانون ہے“ اندر کھاتے ان کی ناراضگی یہ تھی کہ ہمیں کھل کر جنگل میں منگل بنانے کیوں نہیں دیا جاتا۔ ”کچھ ”جیالے“ تو کہتے ہیں کہ ہم منگل کے ساتھ بدھ اور جمعرات بھی منانا چاہتے ہیں۔ شاہ جی قبلہ نے کہا کہ مجھے بتاکر ڈاکٹر عاصم کے لیے چھاپا کیوں نہیں مارا گیا تاکہ ہم اسے بیرون بھجوانے کا فوری طور پر اہتمام کرتے۔ نائن زیرو پر چھاپے کے لیے بھی اسی طرح کا واویلا مچایا گیا تھا۔ بلاول ہاﺅس پر چھاپے کا خطرہ منڈلانے لگا ہوا ہے۔ ملک ریاض کے تعمیر شدہ لاہوری بلاول ہاﺅس کی باری بھی آنے والی ہے۔؟
ایک مشہور ماڈل کی شادی ہوئی۔ رات کو دولھے کی ماں نے دونوں کے لیے دودھ کے گلاس کمرے کے اندر پہچانے کے لیے دستک دی تو تجربہ کار عورت کھڑکی سے باہر پھلانگ گئی۔ اس کے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا، چھاپہ؟ چھاپے سے پہلے بتایا جائے تو یہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ شاہ جی نے تو اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ڈی جی رینجرز کے منہ پر کہہ دیا کہ ڈی جی رینجرز میرے ”انڈر“ ہے مگر ڈی جی صاحب تو ”اپر“ بلکہ ”سپر“ لگ رہے تھے۔
خبر آئی ہے کہ ڈاکٹر عاصم پہلے دن ہی ”وعدہ معاف“ گواہ بن گئے تھے اور 28 جیالے اور بڑبولے سیاستدانوں نے دہائی مچا دی۔ حتیٰ کہ ایک نوبل آدمی قمرالزماں کائرہ بھی بول پڑے سنا ہے 28 لوگوں کی فہرست میں پہلا نام ہی ڈاکٹر عاصم نے خورشید شاہ کا بتایا ہے۔ مخدوم گیلانی فہیم قمرالزمان کائرہ رحمان ملک، ایان علی، شیری رحمان اور بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کا نام بھی ہے۔ آصفہ نے ڈاکٹر عاصم کے ساتھ نااہل اور کرپٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے لیے بھی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ جب گیلانی کو سپریم کورٹ والے ”صدر“ صاحب کی ہدایت پر سزا دینے والے تھے تو دونوں بہنوں بختاور اور آصفہ نے ان کی بہادری اور وفاداری کے لیے تعریفی پیغامات قوم کو دیے تھے؟ مگر بے چارے گیلانی کو الوداع کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے بعد اب پھر گیلانی صاحب کی وفاداری کا پیغام آصفہ نے دیا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ سنا ہے ایان علی بھی وعدہ معاف گواہ بھی بنی تھی۔ یہ ثبوت ہے کہ وہ بھی ”صدر“ زرداری اور رحمن ملک کی خاص دوست ہے۔ نجانے اس نے کس کس کو گواہیاں دی ہیں اور کس کس کے خلاف دی ہیں؟
ڈاکٹر عاصم نے وعدہ معاف گواہ کے طور پر اپنے ”محسن دوست“ ”صدر“ زرداری کا نام بھی ”ملازم دوست“ ذوالفقار مرزا کی طرح فراہم کر دیا تو پھر کیا بنے گا۔ پھر میں خورشید شاہ، کائرہ اور آصفہ بیٹی سے پوچھوں کہ اب ڈاکٹر صاحب کے لیے ان کا کیا خیال ہے۔ زرداری پارٹی بلکہ سب پارٹی لیڈروں کی پارٹیاں اپنے اندر تھوک کے حساب سے وعدہ معاف گواہ رکھتی ہیں۔ بھٹو کی شہادت کا رونا اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے کیش کر رہے ہیں وہ بتائیں کہ ان کے جنازے میں کتنے لوگ تھے؟ ”صدر“ زرداری کے زمانے میں وہاں جیالوں کا ہجوم سنبھالا نہیں جاتا تھا۔ پارٹی کے سارے مخدوم ”صدر“ زرداری کے خادم تھے اور ہیں۔
ایک بات ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو نے بڑی مزیدار کہی ہے۔ ”زرداری“ کو بچانے کے لیے کرپٹ بزدل مفاد پرست اور مصلحت کیش جیالوں اور جیالیوں کی جنگ قابل دید ہو گی۔ شاید اسی جنگ کی طرف خورشید شاہ نے اشارہ کیا ہے کہ زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو جنگ ہو گی۔ پہلے بھی زرداری صاحب دس گیارہ سال جیل میں رہے ہیں تو جیالوں کی جنگ دیدنی تھی۔ پانچ بھٹوﺅں کو مروا کے جیالے یہ نعرہ پورے جذبے سے لگاتے ہیں زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ اسی شوق شہادت میں زرداری صاحب نے بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری رکھا ہے اور اسے پارٹی کا برائے نام چیئرمین بنا دیا ہے اور خود بلکہ خود بخود شریک چیئرمین بن بیٹھے ہیں اور پھر ایوان صدر پر قبضہ کر لیا۔ سیاستدانوں کو مبارک ہو کہ کنفرم کرپٹ اور ظالم آدمی کو صدر بنا دیا۔ جمہوریت بچانے کے لیے کیا کیا ”قربانیاں“ دینا پڑتی ہیں؟ آمرانہ جمہوریت ہمیں مبارک ہو۔
میری تجویز ہے کہ ”صدر“ زرداری سے پہلے ان کے یار ”یار غور و فکر“ رحمان ملک اور ڈاکٹر قیوم سومرو کو گرفتار کیا جائے اور پھر ان کی ”وعدہ معافیاں“ دیکھیں۔ اب ”زرداری“ پارٹی کو شیری رحمان، رحمان ملک اور ڈاکٹر قیوم سومرو چلا رہے ہیں۔ مجھے بلاول سے ہمدردی ہے کہ وہ واقعی اپنی ماں شہید بے نظیر بھٹو والی پارٹی زندہ کر سکتا ہے۔ مگر ”صدر“ زرداری اور فریال تالپور کبھی ایسا نہ ہونے دے گی
وعدہ معاف گواہ کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ یہی ”خاص روشنی“ کی مثال ہے جس پر ”صدر“ زرداری کو ناز ہے۔ شہید بھٹو کے جتنے وعدہ معاف گواہ تھے ان سب کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ بی بی سی نے کہا کہ کرپشن سکینڈلز میں مسلم لیگ کے لوگ بھی آ سکتے ہیں۔ کون سی مسلم لیگ ؟ ایک تو چودھری شجاعت کی کوششوں سے متحدہ مسلم لیگ بن رہی ہے اور ایک (ن) لیگ۔ بات چل نکلی ہے تو دور تلک جائے گی۔ خود خواجہ آصف نے بھی اسی طرح کی بات کی ہے کیا خواجہ صاحب کو یہ احساس خود بخود ہو گیا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی شکار ہو سکتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی اسفندیار ولی کی پارٹی؟ پارٹی تو کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز تو پارٹی لیڈر ہوتے ہیں۔
یہ لیڈر نہیں ہیں پارٹی لیڈر ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان کی جاگیریں ہیں مگر افسوس پیپلزپارٹی کا ہے۔ پیپلزپارٹی۔ ”صدر“ زرداری کی جاگیر ، بلاول بھٹو کا حصہ بھی اس جاگیر میں ہو گا؟
یہ ایک تاریخی افسوس ہے کہ بھٹو کا جانشین اب ”صدر“ زرداری ہے۔ ایک حوصلہ افزا خبر کہ بلاول نے کہا ہے ”کارکن سرمایہ ہیں پارٹی کے اندر ہر فیصلہ ان کی مشاورت سے ہو گا،، اس بات کا ردعمل صدر زرداری کی طرف سے کیا ہو گا۔ کارکنوں کا حال سب پارٹیوں میں ایسا ہی ہے۔ کچھ اچھا بھی تو ہو سکتا ہے اگر بلاول کو پوری طرح موقعہ دیا جائے اور وہ مخلص لوگوں کو ساتھ لے کر چلے۔