• news
  • image

واہگہ بارڈر پر پاکستانی سکھوں کی تعیناتی اور جنرل ضیائ

واہگہ بارڈر پر ڈیوٹی دینے والے چاک و چوبند لوگوں میں پاکستانی سکھوں کو بھی بھرتی کیا جائے تاکہ ہندوﺅں پر رعب پڑے۔ ہمارے جوان بہت سمارٹ وجیہہ اونچے لمبے اور خوبصورت ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں ہندو لوگ بہت کم حیثیت اور حقیر لگتے ہیں۔ پاکستانی سکھ سردار بہت زبردست لوگ ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہندو خواہ مخواہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں گے۔ 

یہ باتیں میرے ساتھ برادرم کرنل ضرار کر رہے تھے۔ وہ پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ ہم بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں مگر ہم ٹوٹ پھوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ ہماری محبت دل ہی دل میں تڑپتی رہتی ہے۔ کرنل ضرار امیدوں اور آرزوﺅں سے بھرے ہوئے انسان ہیں۔ ان سے مل کر پاکستان سے محبت میں ایک ولولہ تازہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ جہاں رہتے ہیں ان کے گھر کے اوپر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں صرف حکمرانوں کے گھروں پر دفتروں اور گاڑیوں پر پاکستانی جھنڈا لہراتا ہے جبکہ میرے خیال میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ اس کے گھر اور دفتر پہ پاکستانی پرحم لہرائے۔
23 مارچ یوم پاکستان 14 اگست یوم آزادی 6 ستمبر یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے تو عام لوگوں کو اپنی ٹرانسپورٹ گھر اور دفتر دکان پر جھنڈا لہرانے کی اجازت ہوتی ہے۔ سارے ماحول میں ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ ہر طرف پاکستانی جھنڈوں کی بہار لگ جاتی ہے۔ اس معاملے میں کوئی تخصیص نہیں ہونا چاہیے جبکہ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ امیر کبیر وزیر شذیر حکمران افسران وغیرہ وغیرہ کی وطن کے ساتھ محبت مصنوعی ہوتی ہے۔ فطری اور اصل محبت ان کو ہے جسے وطن سے کچھ نہیں ملا۔ اس کے باوجود پاکستان زندہ باد کے لیے ان کی آواز سب سے بلند ہوتی ہے۔ اسی جذبے سے وہ اپنے آپ کو سربلند کرتے ہیں۔
آج کے حالات میں لوگ اپنے سپہ سالار اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے والہانہ پن کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ اس کے لئے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی نہ اشتہار بازی کی گئی ہے۔ مگر جنرل صاحب نے مسلسل کام کیا ہے اور وطن عزیز سے ان لوگوں کو بے نقاب کرنے اور سزا دینے کی ٹھان لی ہے جنہوں نے اس وطن کو کسی طریقے سے نقصان پہنچایا ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے۔ کرپشن بدعنوانی، بے انصافی کی انتہا کر دی ہے۔
ایک عزم صمیم کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جنرل صاحب نے جاری رکھا ہوا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ کراچی آپریشن کے ذریعے شہر کی رونقیں اور روشنیاں دوبارہ واپس لوٹائی ہیں۔ ہر طرح کی سراسیمگی اور خوف و ہراس کو ختم کیا ہے۔ اس کے لئے جو بھی واویلا کیا جا رہا ہے۔ سیاست اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ کون ایسا کر رہا ہے او رکیوں کر رہا ہے۔ عسکری قیادت نے اس کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ لوگ سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔
پاکستان کے جلال و جمال کے منظر چمکنے لگے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں عوام نے کبھی کشمیر کو نہیں بھلایا مگر حکام کبھی کبھی مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ مذاکرات کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ فائدہ بھارت کو بھی نہیں ہوا مگر بھارتی حکام نقصان کو بھی اپنا فائدہ سمجھتے ہیں۔
پہلی بار بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے پاکستان نے برابری کی سطح پر بات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا ہے اور بھارت مذاکرات سے بھاگ گیا ہے۔ کشمیریوں نے بھی محسوس کیا ہے کہ پاکستان ہمارے ساتھ ہے۔ مظلوم کشمیری اپنے علاقے میں بھارتی فوج کی توپوں کی گونج میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ پاکستانی جھنڈا لہراتے ہیں تو ہم بھی کشمیر زندہ باد کا نعرہ لگائیں۔
سرکاری میٹنگ میں جہاں بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈٹ کر بات کرنے کا فیصلہ ہوا وہاں نواز شریف تو تھے ہی۔ جنرل راحیل شریف بھی تھے۔ میری تجویز ہے کہ بھارت کے معاملے میں کسی فیصلے کے لئے جنرل صاحب کا میٹنگ میں موجود ہونا ضروری ہے۔
بات کرنل ضرار کے ساتھ بات چیت کے ایمان افروز اور دلیرانہ ارادے سے شروع ہوئی ہے۔ مجھے یہ بات پسند آئی بلکہ میرے دل کو لگی کہ خاص طور پر واہگہ بارڈر پر پاکستانی سکھ سردار متعین کئے جائیں تاکہ بزدل ہندوﺅں کی نیندیں اڑ جائیں۔ یہ منظر انہیں خالصتان کی تحریک کی یاد دلوائے گا۔ خالصتان کی تحریک پھر زور پکڑ رہی ہے۔ خالصتان بن گیا تو کشمیر خود بخود پاکستان کو مل جائے گا۔ میں نے گولڈن ٹیمپل امرتسر میں سکھ سردار جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سے ملاقات کی تھی۔ جس بہادر شخص کے نام میں جرنیل کا لفظ آتا ہو وہ اپنی قوم کے لئے قربانی دے سکتا ہے اور اس نے قربانی کی ایسی کہانی اپنے خون سے لکھی ہے جسے بھارت کبھی بھول نہیں سکتا۔
جنرل ضیاءالحق زندہ ہوتا تو اب تک خالصتان بن چکا ہوتا۔ مجھے کچھ باتوں میں جنرل ضیاءسے اختلاف ہے مگر ان کا اعتراف بھی ہے کہ انہیں اسی خطرے کے پیش نظر شہید کروا دیا گیا کہ وہ روس کے بعد بھارت کو بھی سبق سکھانا چاہتے تھے۔ پاکستانی سکھوں کو واہگہ بارڈر پر دیکھ کر ایک عجیب منظر بنے گا۔ ہندوﺅں کے چہرے دیکھنے والے ہوں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن