• news

سپریم کورٹ ہے یا امرت دھارا، ادارے کام نہ کریں تو کیا ہماری ذمہ داری ہوگی: چیف جسٹس

اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت+آن لائن) سپریم کورٹ نے وکلاء کی جعلی ڈگریوں کی جانچ پڑتال، جعلی لا کالجز کی روک تھام اور وکلاء کے خلاف انضباطی کارروائی کے لئے ٹربیونلز کو فعال کرنے کے بارے میں معاملات پر پاکستان بار کونسل سمیت پانچوں دیگر بار کونسلز سے رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ حالات سے مایوس نہیں ہوں۔ برے دن ختم ہونے والے ہیں جلد اچھے دن شروع ہوں گے۔ کیا اب سب اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے کہ سب کے حصے کا کام سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ انتخابات کے دوران کاروبار کرنے والے اور پنکچرز لگانے والے کو بھی ووٹ ڈالنے کے لئے خصوصی گاڑیوں پر لایا جاتا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ملک میں انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی مبینہ کرپشن میں ملوث وکلائ‘ جعلی ڈگری والوں کو سزا دینا ہوگی۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ بعض وکلاء نے تو خلائی اداروں سے قانون کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے بار کونسلوں‘ ایف بی آر‘ کسٹم سب کو عدالت نے چلانا ہے ڈاکٹروں کے معاملات بھی ہم نے چلانے ہیں۔ سپریم کورٹ ہے یا امرت دھارا ہے جب تمام ادارے اپنا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا تمام تر ذمہ داری پھر سپریم کورٹ کی ہو گی۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ ہر طرف مایوسی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مایوس نہ ہوں۔ یہ خوشخبری پہنچی ہے کہ یہ برے دن باقی نہیں رہیں گے نا امید نہ ہوں یہ حافظ صاحب نے فارسی میں کہا تھا جسٹس دوست نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب قوم کا حصہ ہیں سب کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ جسٹس فائز نے کہا کہ دبئی والوں کے پاس تیل نہیں ہے جو ملک ہم سے پیچھے تھے آج آگے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں پر احساس زیاں بھی جاتا رہا ہے۔ کم از کم خرابی سامنے لانے کا احساس تو ہونا چاہئے۔ جسٹس دوست نے کہا کہ اگر بار کونسلوں پر سینئر لوگ قبضہ نہیں کر لیتے معاملات حل نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء کے خلاف کون کارروائی کرے گا جب وہ خود ان سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں۔ جسٹس دوست نے کہا کہ سارا وکلاء کا نظام بھی طورخم بارڈر بنتا جا رہا ہے جہاں کوئی مانیٹرنگ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاید ہمارے ایمان کی کمی ہے۔ کوئی امیر ہے یا غریب رشتہ دار ہے انصاف کرنا ہے۔ ایمان ہو گا اللہ دے گا تو کام چلے گا اگر بے ایمانی ہوگی تو کوئی بھی کام نہیں ہوگا۔ عدالت کو بتایا کہ نادرا نے 2 کروڑ روپے لے کر بھی ہمیں کارڈ بنا کر نہیں دیا۔ ابھی تک ریکارڈ نہیں بن سکا۔ عدالت نے کہا کہ اس مقدمے کو 5 ستمبر کے بعد رکھیں گے۔ اس کی اہمیت کو سمجھا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء کیخلاف لحاظ اور مروت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلاتخصیص کارروائی کرنا ہوگی، اس پیشہ میں کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ کمیٹی کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان بار کے پاس اختیار ہے کہ وہ تین ماہ کیلئے لائسنس معطل کرسکتی ہے مگر دوست وکلاء کے لائسنس معطل کرنے اور کارروائی میں بڑی مشکلات ہیں۔ کل انہوں نے ہی ووٹ دیگر بارز کے نمائندوں کا جتوانا اور ہرانا ہوتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک غیر جانبدار وکلاء کی کمیٹی بنادی جائے جو بغیر کسی اثر کے اپنا کام کرے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ایک بار ایمرجنسی لگا کر تمام وکلاء کے لائسنس معطل کردیئے جائیں اور جو رینیو کرانے آئیں انکی سکروٹنی کی جاتی رہے۔

ای پیپر-دی نیشن