جنگ ستمبر کا پس منظر اور مسئلہ کشمیر
1962ء میں کشمیر سیکٹر میں چین اور بھارت کے درمیان مثبت لداخ بارڈر پر سرحدی جھڑپیں باقاعدہ جنگ میں بدل گئیں اور چین نے بھارت کو شکست دے کر اکسائی چین پر قبضہ کر لیا۔ بھارتی حکمران چین کے ہاتھوں اس شکست پر تلملائے ہوئے تھے۔اور وہ اس شکست کا داغ دھونے کیلئے بے چین تھے۔ مگر عالمی سطح پہ مسئلہ کشمیر پر جو تشویش پائی جاتی تھی اس کے پیش نظر دونوں ملکوں پر اس مسئلہ کے پرامن حل کے لئے دبائو بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ 1963ء میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھٹو اور بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ کے درمیان قدرے بدلے ہوئے حالات میں مذاکرات ہوئے جس کابنیادی نکتہ کشمیر تھا۔ امریکی وزارت خارجہ کی خفیہ رپورٹوں کے مطابق پاکستانی حکومت نے پہلی بار استصواب رائے کے علاوہ دیگر متبادل تجاویز پر غور کا عندیہ دیا اور بھارت نے بھی کشمیر کو متنازعہ تسلیم کیا اور دونوں ممالک نے سرحدی ردوبدل کے لئے آمادگی ظاہر کردی تھی۔ گویا پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے غور کا آغاز 1963ء میں ہو چکا تھا۔ اسی پس منظر میں 1964ء میں شیخ عبداللہ کو نہرو نے طویل قید کے بعد رہا کردیا کیونکہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو پاکستان ہندوستان اور کشمیر کے درمیان ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن کا خواب دیکھ رہے تھے مگر ان کی بے وقت موت کے باعث کشمیر پر بات چیت کا دور بے معنی رہا اور شیخ عبداللہ کو جو نہرو کی طرف سے بات چیت کے لئے پاکستان آئے ہوئے تھے عجلت میں واپس بھارت جانا پڑا، ان کے بعد لال بہادر شاستری نے سلسلہ جاری رکھا اور غیرملکی دورے پر جاتے ہوئے کراچی ایئرپورٹ پر مختصر قیام کے دوران انہوں نے پاکستانی صدر سے ملاقات بھی کی۔
اس دوران 1964ء میں بھارتی انتہا پسند وزراء اور سیاست دانوں کی شہ پر بھارتی لوک سبھا نے کشمیر کی آئینی حیثیت میں ردوبدل کی اور صدر و وزیراعظم کا عہدہ ختم کر کے اسے اپنی سٹیٹ کی حیثیت دیدی اور وہاں گورنر اور وزیراعلیٰ کا انتخاب کر کے لوک سبھا میں کشمیر کی 4نشستیں مقرر کردیں اس پر کشمیری عوام سیخ پا ہو گئے۔دوسری طرف رن آف کچھ میں پاکستان کی کامیاب فوجی کارروائی کے بعد وزیر خارجہ بھٹو اور عزیز احمد نے کشمیر میں ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کا منصوبہ بنایا ایوب خان اس پر نیم دلی سے رضا مند تھے بقول ائروائس مارشل نور خان ’’بھٹو نے ایوب کو یقین دلایا کہ کشمیر میں جنگ ہوئی تو امریکہ نے یقین دلایا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا‘‘۔
مقبوضہ کشمیر میں عوام کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے اور حضرت بل سے نبی کریمؐ کی موئے مبارک کی چوری کے حوالے سے شدید مشتعل تھے احتجاجی تحریک چل رہی تھی۔ اس دوران 9اگست 1965ء کو آزاد کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں نے انقلابی کونسل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کشمیر میں بغاوت اور بھارتی افواج پر حملوں کا اعلان کردیا، ’’صدائے کشمیر‘‘ ریڈیو سٹیشن قائم کیا گیا، 11اگست کو جموں سرینگر روڈ پر حریت پسندوں نے متعدد پل اور فوج کے اسلحہ کے ڈپو تباہ کردیئے جس کے بعد وادی کشمیر میں بھارتی فوج اور حریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں شدت آ گئی، 12اگست کو وزیر خارجہ بھٹو نے کہاکہ پاکستان کا کشمیر میں جنگ سے کوئی تعلق نہیں کشمیری عوام نے بھارتی قبضے سے تنگ آکر بغاوت کی ہے، اس لئے بہتر ہے کہ بھارت اس مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نکالے۔ مگر اس سے الٹا اثر ہوا۔ اور کشمیر میں بھارتی افواج کی کارروائیاں مزید بڑھ گئیں۔
17اگست کو بھارت نے کارگل سیکٹر میں پیش قدمی کرتے ہوئے ان تین چوٹیوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا جو اقوام متحدہ کی مداخلت پر پاکستان کو واپس کی گئی تھیں۔ 18اگست 1965ء کو کشمیری حریت پسندوں نے پاکستان سے باقاعدہ مدد کی اپیل کر دی جبکہ وزیر خارجہ بھٹو نے ایک مرتبہ پھر بھارت سے کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے پر زور دیا مگر کشمیر میں حالات قابو سے باہر ہوتا ہوا دیکھ کر بھارت نے 28اگست سے پاکستان کی سرحدوں پر بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور جنگی کارروائیوں کا آغاز کردیا جس کے جواب میں پاکستانی افواج کو دفاع وطن کے لئے میدان جنگ میں آنا پڑا۔ پاک فوج نے زبردست کارروائی کرتے ہوئے چھمب جوڑیاں اور دریائے توی کے بڑے حصہ پر قبضہ کر لیا۔ تو بھارت نے ستمبر 1965ء کی 5 تاریخ کو رات کی خاموشی میں پاکستان پر حملہ کردیا بھارت دراصل 1962ء میں چین کے ہاتھوں اپنی شرمناک شکست اور مجاہدین کے ہاتھوں کشمیر میں اپنی ہزیمتوں کے داغ کو اپنے ماتھے سے دھونا چاہتا تھا، بھارتی جنرل صبح کا ناشتہ اور شام کو جشن فتح لاہور میں کرنے کا جو خواب لے کر پاکستان پر حملہ آور ہوئے تھے وہ خواب پاکستان کی بہادر افواج نے صبح ہونے سے قبل ہی خواب پریشاں کی طرح بکھیر کر رکھ دیا اور ہر محاذ پر بھارت کی سپاہ کو منہ کی کھانا پڑی۔ یہ وہ حالات تھے جن کی وجہ سے بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا محاذ کھولا مگر پاکستانی قوم اور مسلح افواج نے یکجہتی کا عدیم النظیر مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے مگر مسئلہ کشمیر جو اس جنگ کی بنیادی وجہ تھا آج بھی حل طلب ہے اور بدستور ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی وقت کسی نئی جنگ کا باب کھل سکتا ہے۔ اس لئے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ جلد از جلد اس مسئلہ کا پرامن حل نکالے کیونکہ اس وقت بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف تحریک آزادی زوروں پر ہے اور بھارت ایک بار پھر پاکستان کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے جس کا نتیجہ ایٹمی جنگ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔