پاک افغان تعلقات ۔ حالیہ تناظر میں
پاک افغان تعلقات کے بارے میں پاکستانیوںکی آرا مختلف رہی ہیں۔ گزشتہ چودہ سال کے دوران تعلقات میں سردمہری کا ذمہ دار کچھ لوگ حامد کرزئی کو قرار دیتے ہیں بعض تجزیہ کار اس کیلئے پاکستانی حکومتوں کو قصور وارٹھہراتے ہیں۔ مگر افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت آنے کے بعد سب کو یہ امید تھی کہ اب دو طرفہ تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہو جا ئینگے۔ چنانچہ پاکستان نے نئی افغان حکومت کو خوش آمدید کہا اور نئے افغان صدر کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ صدر اشرف غنی کے پیہم اصرار پر پاکستان نے طالبان اور نئی افغان حکومت کے درمیان بات چیت کیلئے ایک سہولت کا رکی حیثیت سے مدد کرنے کی حامی بھرلی اور اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کئی دفعہ کابل کا دورہ بھی کیا۔ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان رسمی مذاکرات مری میں ہوئے اور طرفین نے عید کے بعد مذاکرات کے دوسرے دور پر اتفاق بھی کرلیا۔ لیکن جہاں پاکستان اور افغان عوام صلح اور امن کی جانب اس پیشرفت پر بے انتہا خوش تھے، وہیں دوسری طرف کچھ عناصر کے سینے پر سانپ لوٹ رہا تھا۔ علاقائی ممالک میں سے بھارت کو یہ بات پسند نہ تھی کہ افغانستان میں امن آجائے اور پاک افغان تعلقات بہتر ہوجائیں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں افغانستان کے راستے پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے منصوبے کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ بدقسمتی سے اس ملک کے ایجنٹ افغانستان کے ریاستی اداروں میں بھی موجود ہیں۔چنانچہ ایک سازش کے تحت صلح کے مذاکرات کو ناکام بنانے کیلئے افغان صدارتی محل اور افغان انٹیلی جنس کی طرف سے مذاکرات کے دوسرے دور سے صرف دو دن پہلے ملاعمر کے مرنے کی تصدیق کردی گئی جس کی وجہ سے طالبان کیلئے بات چیت جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔پھر دس بارہ دن کے اندر کابل میں ایک دھماکہ ہوا جسکی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی مگر افغان اداروں نے اس کا الزام پاکستان کے سرتھوپ دیا۔افغان صدر نے پاکستانی وزیراعظم سے فون پر بات کی اور جناب نواز شریف نے انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا لیکن صدر غنی نے تفتیش یا ثبوت کا انتظارکئے بغیر ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں پاکستان کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے افغانستان کی ہر تکلیف اور پریشانی کا ذمہ دار قراردیا۔
یہ پریس کانفرنس دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم موڑتھا جس کے بعد سے روزانہ افغان سیاسی قائدین اور سرکاری اہلکار پاکستان کو ملعون کررہے ہیں، افغان سرکار کے ایماپر کئے گئے پاکستان کیخلاف مظاہروں میں ہمارے جھنڈے جلائے گئے ہیں، ہماری مصنوعات کے بائیکات کا اعلان کیا گیا ہے، ہمارے خلاف جہاد کے فتوے دئیے گئے ہیں، ہزاروں افغانوں نے ہمارے خلاف ایک قرارداد پردستخط کئے ہیں اور مختصر یہ کہ پاکستان کو ایک دشمن ملک کے طورپر پیش کیا جارہا ہے۔افغان الزامات اور اقدامات کے جواب میں پاکستان کا رویہ معذرت خواہانہ ہے۔ پاکستان کی طرف سے حالات کو معمول کیمطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چنانچہ پاکستان کو دی جانیوالی گالیاں ہمارے سیفران کے وزیر کا دورہ کابل ملتوی نہ کرواسکیں اور انہوں نے پاکستان مخالف مظاہروں کے دوران ہی وہاں جاکر مہاجرین کی مزید میزبانی کی حامی بھر لی۔ یہی نہیں سیفران کی وزارت دس لاکھ سے زیادہ غیر قانونی افغانوں کو رجسٹرڈ کرنے پر بھی آمادہ ہے۔ دوسری طرف افغان وزیر خزانہ نے ان حالات میں مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کیلئے اسلام آباد آنے سے انکار کردیا اور عین اجلاس والے دن فون کرکے معذرت کرلی اور ہم جو ہرحال میں یہ اجلاس کرنے پر مُصر تھے، اپنا سامنہ لے کررہ گئے۔جو لوگ افغان فطرت سے واقف ہیں ان کا کہنا ہے کہ افغانوں سے دوستی برابری کی بنیاد پرہوسکتی ہے۔بڑا یا چھوٹا بھائی بن کر نہیں۔بدقسمتی سے ہماری پراسرار خاموشی کو دُنیا والے ہمارا صبر نہیں بلکہ اعتراف جرم سمجھتے ہیں۔جن لوگوں کو ہماری بے حسی اور نااہلی کا اندازہ نہیں ہے ، وہ ہمارے معذرت خواہانہ رویے کو ہم پر لگنے والے الزامات کے صحیح ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ہم گالیاں کھاکے بھی بے مزہ نہیں ہوتے اور عالمی دبائو کے تحت ناکردہ جرم کی معافی مانگنے اور روٹھے صنم کو منانے کی کوشش کرنے کو اپنی جیت سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ بزعم خود بڑے پن کا مظاہرہ کرنیوالے ہمارے بزرجمہر یہ بتائیں کہ کیا ہمارے ساتھ بھی کبھی کسی نے اس بڑے پن کا مظاہرہ کیا؟کیا ہم ان لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کررہے جو ہمارے احسانات کو بین الاقوامی دبائو کا نتیجہ کہہ کر ہمارے خلوص اور نیک نیتی کی توہین کرتے ہیں؟کیا ہم اتنے مجبور ہیں کہ اپنا جھنڈا جلانے والوں کے پائوں پڑتے رہیں؟ کاش ہماری قیادت میں سے کوئی ان سوالوں کے جواب دے سکے، کاش!!