6 ستمبر ۔۔ بہادری کی چند داستانیں
انڈوپاک ہسٹری میں یہ بات اب ایمان کی طرح پختہ ہو چکی ہے اور ایک نظریہ کی صورت اختیار کر چکی ہے کہ یہاں اس کے خطہ سر زمین پر جس کو تاریخ میں برِ صغیر کہا جاتا ہے۔ ماشااللہ سے دو قومیں آباد ہیں۔ اس بات کا پرچار ہر دو قوم سے تعلق رکھنے والے تقریباََ سبھی راہ نما کرتے رہے۔ خصوصاََ 1857ء کی جنگِ آزادی نے اس نظریہ کو اور بھی تقویت دے دی۔ کہ غلامی محض مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ جو ایک وقت میں حکمران تھے اور پھر انگریزوں سے مغلوب ہوئے تو ہندو رعایا کے ساتھ جا ملے اور دورِ غلامی میں چلے گئے۔آزادی کے لیے ہاتھ پائوں مارنا مسلمانوں کے لیے ایک فطری امر تھا۔ ہندو بے حس قوم کا کردار ادا کرتے رہے۔ ان کے نزدیک آزادی اور غلامی کا فرق ابھی کچھ معنی نہ رکھتا تھا۔ وہ ابھی اس سلسلہ میں خوابِ خرگوش میں تھے۔ اس لیے کہ غلام نے محض آقا بدلا تھا۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ نئے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہندو پہلے سے بھی زیادہ انگریز کی چاپلوسی میں مستعد اور چالاک ہو رہا تھا۔ چنانچہ انگریز سے نجات حاصل کرنے کا کام محض مسلمانوں کے اوپر آن پڑا تھا۔ اس جدوجہد میں مسلمان کو ہندو اور انگریز دونوں قوموں کے ظلم اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ سر سید احمد خان اور اس جیسے لوگوں کے ذہنوں میں دو قومی نظریہ کا احساس گہرا ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ ان اکابرین کی سعئی مسلسل سے مسلمان ہندوستان میں ایک الگ قوم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے لگے۔ علامہ اقبال کا تصورِ پاکستان اس سلسلہ کی سب سے اہم کڑی تھی۔ قائدِاعظم اور ان کے رفقاء نے اس قومی نظریاتی میراث کو آگے بڑھایا اور الگ ملک پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انگریز جاتے جاتے ان دونوں قوموں کے درمیان بہت سے معاملات وجہِ تنازعہ بنا کے چلتے بنے۔ جن میں کشمیر سب سے اہممسئلہ بن گیا۔ ہندو نے بظاہر پاکستان کو بنتے دیکھا اور چپ رہا۔ مگر اندر سے وہ پاکستان کے خلاف دشمنی کی آگ آج تک پال رہا ہے۔ پاکستا ن کووہ محض قائدِاعظم محمد علی جناح کی ضد کی پیداوار سمجھتاہے۔ ہندوستان متعد د بار پاکستان پر حملہ کر چکا ہے۔ جس میں اس نے منہ کی کھائی ۔ بھارت نے باقاعدہ اور فیصلہ کن جنگ 1965ء میں پاکستان پر مسلط کی۔6 ستمبر1965ء کو بھارت نے اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل کو با لائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کی غرض سے پاک سر زمین پر باقاعدہ رات کی سیاہی میں حملہ کیا۔ پہلے فیز میں سیالکوٹ ، لاہور بھارت کے ٹارگٹ پر تھا۔ انڈیا آرمی کے اس وقت کے سِپہ سالار مانک سنگھ جس کے ذمہ یہ ٹاسک سونپا گیا تھا نے کمانڈرز کی میٹنگ میں اعلان کیا کہ صبح ناشتہ لاہور جمخانہ میں کریں گے۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ رات و رات جنگ کی خبر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی ۔ ریڈیو پاکستان سے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی پاٹ دار آواز ابھری ۔ اٹھو میرے وطن کے لوگو !دشمن پر ٹوٹ پڑو۔دشمن نے ہم پر شب خون مارا ہے۔ اس کو تہس نہس کر دو۔ چشمِ فلک میں دیکھا کہ لاہور کے باسیوں نے داتا کے سپاہیوں نے دشمن کو ہاتھوں ہاتھ لیااور پاک فوج نے صبح ہوتے ہوتے ملک کے ہر محاذ پر دشمن کے دانت کٹھے کر دیے۔ ہندو جرنیل جو لاہور میں ناشتہ کرنے کا اعلان کر رہا تھا دیکھ رہا تھا کہ اس کی ٹڈی دل فوج اپنے زخم چاٹ رہی تھی۔ کھیم کرن کے محاذ پر میجر عزیر بھٹی اور اس کے ساتھیوں نے دشمن کی آرمی کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ سیالکوٹ پر دشمن کے600 ٹینک حملہ کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ہمارے 600 جوانوں کی جواں مردی دیکھیے کی وہ پیٹ پر بم باندھ کر ان دیوہیکل ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اور ٹینک تو کیاوہ خطہ زمین بھی قیامتِ صغریٰ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ غرضیکہ ہر محاذ پر دشمن زک اٹھا رہا تھا۔ اور بھاگ رہا تھا۔ سرفراز احمد اور رشید شامی نے جنگی طیاروں پر اڑان پکڑی اور انڈیا پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کو ہوا میں اڑا دیا ۔ جہاں سے دشمن کے بہت سے طیارے پاکستان پر حملہ کے لیے پَر تول رہے تھے۔ یہ واقعہ جو میں اب بیان کرنے جا رہا ہوں۔ فضائیہ کی تاریخ میں اب تک ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ جب بھارت نے سرگودھا ائربیس پر فضائی حملہ کیا ۔ پاک فضایہ کے لجنڈ پائلٹ جسے آج بھی زمانہ بھلا نہیں پایا ۔ آپ چند سال قبل دنیا سے طبعی موت کے ہاتھوں رخصت ہوئے۔ پاکستانی تاریخ کا ان مٹ نام ایم ایم عالم ۔ جس کا نام لبوں پر آتے ہی جوش و جذبے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چشم فلک نے یہ عجیب و غریب کرشمہ ساز لمحات دیکھے۔ بھارت کے دیوہیکل جنگی طیارے رات کی سیاہی میں سرگودھا ائر بیس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ مگر اچانک جیسے کروڑوں وولٹیج پاور کی آسمانی بجلی کوند گئی۔ ایم ایم عالم اپنا کام دکھا رہا تھا۔ اس کا طیارہ دشمن کے طیاروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ کاش اس وقت آج کے ویڈیو کا زمانہ موجود ہوتا اور وہ نیٹ ورک کا دور ہوتا ۔یہ سارا منظر سوشل میڈیا دکھا رہا ہوتا۔ اور وہ زمانہ اپنی آنکھ سے دیکھتا کہ کس طرح ایک پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم دشمن کے6 طیارے یکے بعد دیگرے زمین کی جانب ٹکڑیوں کی صورت میں پھینک رہا ہے۔ یقینا چشمِ فلک نے اپنی آنکھیں میچ لی ہوں گی۔ بھارتی جرنیل مانک سنگھ ناشتہ تو کیا اپنی پتلون پہننا بھی بھول گیا ہو گا۔ جب میرے وطن کا ایم ایم عالم بھارتی طیاروں کو زمین بوس کر رہاتھا۔ آپ کو ایوب خان نے محض ستارئہ امتیاز سے نوازا ۔ ایسے بنگالی شیر کو نشانِ حیدر سے نوازنا چاہیے تھا۔ اس پر قوم آج بھی ایم ایم عالم کے سامنے جواب دہ ہے ۔ مگر ایسے انسان کی جرات کے سامنے یہ دنیاوی تمغے سب ہیچ ہیں۔ جنگِ 6 ستمبر 1965ء کو کتنے ہی ماہ و سال بیت گئے۔ پاکستانی قوم کی بہادری اور جوش و ولولے کی داستانیں آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔